اللہ رب العزت نے انسان کو عقل و شعور دے کر اسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا اور پھر اسے علم جیسی عظیم نعمت سمیت بے شمار نعمتوں سے نوازا۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’اے گروہِ جن و انس! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے!‘‘ لہٰذا قدرت کی طرف سے عطا کردہ ان نعمتوں میں ایک نعمت ’’ماحول کا توازن‘‘ بھی ہے جو آج کل عدم توازن کا شکار ہے۔ کرۂ ارض کا ماحول آج سے کچھ عرصہ پہلے متوازن تھا۔ کیوں کہ زمین پر آبادی کم تھی۔ جنگلات کی بہتات تھی۔ کیوں کہ انسان اس وقت قوانینِ فطرت کا پاس دار تھا لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ دور کا انسان قوانینِ فطرت سے اغماض یعنی ماحول سے لاپروائی برتنے لگا یعنی قدرت کی اس نعمت کی قدر نہ کی، تو ردِ عمل کے طور پر ماحول غیر متوازن ہوا جس کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ (عالمی حدت) کا مسئلہ پیدا ہوا جس کے نتیجے میں انسان مسائل میں پھنس گیا۔

موجودہ دور کا انسان قوانینِ فطرت سے اغماض یعنی ماحول سے لاپروائی برتنے لگا یعنی قدرت کی اس نعمت کی قدر نہ کی، تو ردِ عمل کے طور پر ماحول غیر متوازن ہوا جس کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ (عالمی حدت) کا مسئلہ پیدا ہوا

ہمارے اس بلاگ کا محرک آج کل کے موسمی حالات ہے کہ ہم اکتوبر میں جولائی کا سا ماحول محسوس کر رہے ہیں۔ ہماری یادداشت کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن خصوصاً سوات جیسے سرد علاقے میں اکتوبر کے اوائل میں سردیاں شروع ہوتی تھیں۔ بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا اور پہاڑوں پر کافی برف باری ہوتی تھی جس کی وجہ سے سال بھر کے لیے پانی کے ذخیرے محفوظ ہوجاتے تھے لیکن یہ گلوبل وارمنگ ہی کا اثر ہے کہ یہ علاقہ بھی اکتوبر میں جون جولائی کا منظر پیش کررہا ہے جبکہ وطنِ عزیز کے میدانی علاقوں میں انتہائی شدت کی گرمی پڑ رہی ہے اور عرصہ ہوا بارشوں کا سلسلہ بھی رُک گیا ہے۔ غضب کے اس ماحول میں کٹمل اور مچھروں کی بھی بہتات ہے۔ اس کی بڑی وجہ آبادی میں تیزی سے بڑھتا ہوا اضافہ اور جنگلات کا بے تحاشا خاتمہ ہے۔
عالمی ادارۂ ماحولیات نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چناں چہ ماحول کی یہ تبدیلی خطرناک قرار دی جاچکی ہے جس کا کرۂ ارض پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا کو گلوبل وارمنگ (عالمی حدت) کا گھمبیر مسئلہ درپیش ہے۔ عالمی حدت سے گلیشئر پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے دریاؤں میں سیلاب کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ غور کا مقام ہے کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا ذمہ دار حضرت انسان خود ہے جبکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بحر اوقیانوس کی رفتار بھی سست ہوتی جارہی ہے۔

ہماری یادداشت کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن خصوصاً سوات جیسے سرد علاقے میں اکتوبر کے اوائل میں سردیاں شروع ہوتی تھیں۔ بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا اور پہاڑوں پر کافی برف باری ہوتی تھی جس کی وجہ سے سال بھر کے لیے پانی کے ذخیرے محفوظ ہوجاتے تھے لیکن یہ گلوبل وارمنگ ہی کا اثر ہے کہ یہ علاقہ بھی اکتوبر میں جون جولائی کا منظر پیش کررہا ہے جبکہ وطنِ عزیز کے میدانی علاقوں میں انتہائی شدت کی گرمی پڑ رہی ہے اور عرصہ ہوا بارشوں کا سلسلہ بھی رُک گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ کرۂ ارض کی ماحول میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور زمین پر موسم شدید ہوتے جا رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ فوسل فیولز (Fossil Fuels) رکازی ایندھن یعنی زیر زمین کوئلہ اور پیٹرول وغیرہ کا جلانا ہے۔ بدقسمتی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤسز (سبز مکانی) گیسوں کا اخراج بھی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میتھین (Methane) گیس اور نائٹرس آکسائیڈ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان سرفہرست دس ممالک میں ہوتا ہے جن کے موسموں میں غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور آئندہ سالوں میں صورتِ حال مزید خراب ہونے کے خدشات موجود ہیں۔
گرین ہاؤس اثر اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسوں پر تب قابو پایا جاسکتا ہے کہ اگر ہم فوصل ایندھن اور دوسری اشیا کے بے پناہ جلنے کے عمل کو کم کریں اور ہوا میں شامل ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو مکمل طور پر اگر ختم نہ کرسکیں، لیکن کم ضرور کریں۔ فوسل ایندھن کے متبادل ذرائع مثلاً بجلی اور شمسی توانائی کو استعمال میں لائیں۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کی مدد سے کی جاسکتی ہے۔
نوٹ! ہمارا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آج کل کیڑے مار ادویات کی دکانوں پر عوام کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ کیوں کہ موجودہ گرم ماحول میں کٹملوں اور مچھروں کی بھر مار ہے جبکہ رات کو ہم بھی مچھروں سے کمبل میں منھ لپیٹ کر سوتے ہیں۔