ہم نے پڑھا کہ اُنیس سو ستّر اسّی کی دہائی تک اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر دنیا کے بیشتر اہم ممالک کا سفرانٹری ویزہ پر کیا جاتا تھا، یعنی پہلے سے ویزہ لگانے کی حاجت ہی نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ انگلینڈ اور امریکہ بھی پاکستانی پاسپورٹ پرانٹری ویزہ لگاتے تھے۔ پچاس سال میں اتنی ترقی ہوئی کہ دو چار انتہائی غیر اہم ممالک کے علاوہ، اب کسی بھی ملک جانے کے لئے پاکستانی پاسپورٹ پر نہ صرف ویزہ لگانا پڑتا ہے بلکہ اسی ملک کے امیگریشن والوں کی مشکوک نظروں کا سامنا اور تند و تیز سوالات کے جوابات بھی دینے پڑتے ہیں۔
سی پیک کی وجہ سے چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات دیکھیں۔ گوادر، ا ن کے لئے پوری دُنیا کا دروازہ بننے جا رہا ہے۔ کہتے ہیں یہ گیم چینجر ہے۔ ان کے ساتھ بھی آپس میں آمد و رفت کے وہی روایتی طور طریقے اور پابندیاں رائج ہیں۔ آخر ہم ایک دوسرے کے حوالے سے اتنے بدگمان کیوں ہیں؟ خنجراب میں ’’یاک‘‘ جس کی شکل گائے بیل سے ملتی جلتی ہے، ریوڑ کے ریوڑ پائے جاتے ہیں۔ اس کے جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے ہیں جو بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ دودھ اور گوشت کے علاوہ اسے مال برداری کے لئے بھی پالا جاتا ہے، یعنی غذا بھی اور آمدن کا ذریعہ بھی ’’ہم خرمہ و ہم ثواب۔‘‘ ہنزہ اور آس پاس کے علاقوں میں اس کا گوشت چار سو روپے فی کلو بکتا ہے۔ برف باری کے علاقوں میں اسے سُکھا کر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور سردیوں کے دوران میں کھایا جاتا ہے۔

خنجراب میں ’’یاک‘‘ جس کی شکل گائے بیل سے ملتی جلتی ہے، ریوڑ کے ریوڑ پائے جاتے ہیں۔ اس کے جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے ہیں جو بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ دودھ اور گوشت کے علاوہ اسے مال برداری کے لئے بھی پالا جاتا ہے، یعنی غذا بھی اور آمدن کا ذریعہ بھی ’’ہم خرمہ و ہم ثواب۔‘‘ ہنزہ اور آس پاس کے علاقوں میں اس کا گوشت چار سو روپے فی کلو بکتا ہے۔ برف باری کے علاقوں میں اسے سُکھا کر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور سردیوں کے دوران میں کھایا جاتا ہے۔

شام ہونے سے پہلے پہلے سیکورٹی اہلکار ’’اِلرٹ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ سیاح خراماں خراماں واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ اباسین، جو جتناآگے چلتا ہے، خوفناک سے خوفناک تر ہوتا جاتا ہے۔ اس کا آغاز یہاں سے نکلی ایک چھوٹی سی ندی سے ہوتا ہے۔ چلتے چلتے سیکڑوں ندی، نالیاں اور خوڑ آپس میں مل کر ا س کو متفقہ طور پر اباسین کے ٹائٹل سے نوازتے ہیں۔ اتفاق میں سچ مچ اتنی بڑی برکت ہے، کیا؟

موبائل کے مؤجد کو اللہ سمجھے، اگر یہ نہ ہوتا اور دوستوں کا’’ تصویری ٹرینڈ‘‘ اسی طر ح ہوتا، تو آج ہمیں تصویروں کی کئی بوریاں اُٹھانے کے لئے لیبرز اور علاحدہ ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا پڑتا۔ تصویروں سے موبائل فون کے فل سٹوریج کا بوجھ ہاتھوں میں لئے ہوئے، شاہ جی اور سلطان کے ساتھ خنجراب سے واپسی کی راہ لی۔ علی آباد ہنزہ میں ثنا خان اور اُن کے ساتھی ہمارے انتظار میں ہیں۔ تمام ساتھیوں کے رات کا قیام اُن کے ہاں پہلے سے طے ہے۔ ہنزہ کے سپوت ثنا خان ڈیویلپمنٹ سیکٹر کے کھلاڑی بھی ہیں اور سوشل ایکٹیوسٹ بھی۔ عراق میں ایک بین الاقوامی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں۔ چھٹی پر اپنے پیارے وطن آئے ہیں۔ اشتیاق ہے کہ اُن کے ساتھ شمالی علاقوں کی موجودہ صورتحال اور سی پیک کے حوالے سے لوکل وِژن پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ چلتے چلتے وقت گزاری کے لئے شاہ جی اپنی سیاحتی دنیا کے پرت کے پرت کھولتے چلے جاتے ہیں۔

سیاحت موجودہ وقت دُنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس سے سیر و تفریح اور فرحت و اطمینان کے علاوہ، علاقے کے لوگوں کے رواج، سماج اور بود و باش سے متعلق جاننے کے مواقع ملتے ہیں۔ عمومی طور پر سیاحت کے لئے سفر کے تین ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ ہوائی، زمینی اور سمندری۔ سیاحت کے کئی رنگ و روپ ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ سیاحت مذہبی نوعیت کی ہوتی ہے۔ سعودی عرب، ایران، عراق، کربلا، نجف، ویٹی کن سٹی، پاکستان کے حسن ابدال، شیخو پورہ وغیرہ میں مذہبی فریضے کی انجام دہی کے لئے لوگوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے۔ سپورٹس اورتعلیم بھی سیاحت کے زمرے میں شامل ہے۔ بہ ایں ہمہ سمندری ،پہاڑی اور صحرائی ایڈونچر بھی سیاحت ہے۔ منیلا، بنکاک اور بمبئی بھی لوگ جاتے ہیں، جہاں پراسٹی چیوشن کے ’’شعبے‘‘ کا ریل پیل ہے۔ وائلڈ لائف، ہوٹلنگ، کروز، تاریخ اور بزنس ٹور ازم کے علاوہ، لیبر ٹریفک اور میڈیکل ٹور ازم بھی سیاحت کے معاملے سے منسلک ہیں۔ اسی طرح کوئی سمندر کا، کوئی صحرا ، کوئی پہاڑوں کاناپ تول کرنا چاہتا ہے۔ یورپ کے لوگ اپنی آمدن کا کافی حصہ سیاحت پر خرچ کرتے ہیں، جب کہ پاکستان میں اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس مد میں پیسہ خرچ کرنے والوں کو یہاں پاگل کہاجاتا ہے۔ ہاں، پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت صوبۂ پنجاب میں سیاحت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ بیداری موجود ہے۔ ہمارے سیاحتی علاقوں مثلاً مری، کاغان ناران اور سوات وغیرہ میں اگر ٹورسٹ کی گہماگہمی اور ہلچل ہے، تو وہ پنجاب کی وجہ سے ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ سیاحت مذہبی نوعیت کی ہوتی ہے۔ سعودی عرب، ایران، عراق، کربلا، نجف، ویٹی کن سٹی، پاکستان کے حسن ابدال، شیخو پورہ وغیرہ میں مذہبی فریضے کی انجام دہی کے لئے لوگوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے۔ سپورٹس اورتعلیم بھی سیاحت کے زمرے میں شامل ہے۔

میدانِ بحث کو یک طرفہ اور ہمیں علم کا پیاسا طالب جان کر شاہ جی نے اپنی دانائی کی دھاک بٹھانے کے لئے پہلو بدلا۔ بیک وقت محدود سی سانس لینے کے لئے بات کو بریک لگایا، بیک وقت سوکھی زبان کو گیلا کرنے اور مساج دینے کی خاطر’’ری فریش‘‘کیا، بیک وقت گلا کھنکارا اور بیک وقت کار کے ٹائر بہ یک جنبش بریک رُک گئے۔ ہم نے رب کا شکر ادا کیا کہ اپنی دیگر گاڑیاں سڑک کنارے کھڑی پائیں، جس کا مطلب ظاہر ہے کہ ہم بخیریت علی آباد پہنچ چکے ہیں۔
دریائے ہنزہ پر واقع کھلا ڈھلا علی آباد ٹاؤن، ضلع ہنزہ کا صدر مقام ہے۔ یہ وادی نہ صرف یہ کہ سیر و سیاحت بلکہ کئی اور حوالوں سے بھی ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ لوگوں کی مہمان نوازی، خوش گفتاری، مثبت رویوں اور اقدار سے متعلق اکثر لوگ جانتے ہوں گے۔ آپس میں اتفاق و اتحاد ، حسن سلوک اور بھائی چارے کی فضا کی ہر گھر اور درو دیوار گواہی دے رہی ہے۔ یہاں کی ماحول دوستی کے بارے میں مقامی لوگ بتا رہے تھے کہ کچھ عرصہ پہلے چین نے مقامی تعمیراتی ضروریات بڑھنے کے پیش نظر اینٹوں کا ایک بھٹا قائم کیا۔ لوگوں نے اس بھٹے سے نکلنے والے دھویں کا جائزہ لیا اور اسے ماحول دشمن قرار دے کر اجتماعی طور پر یہاں سے اینٹیں خریدنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے چینیوں کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ ہنزہ والوں نے بھٹا بند کیا بلکہ حیرت والی بات تو یہ ہے کہ چینیوں کو کیا ہوا کہ وہاں سے اپنے ساتھ بھٹس بنانے کا منصوبہ لے آئے؟ کیا ابھی سے انہوں نے ہماری ماحولیات کو بگاڑنے کا کوئی ٹھیکا تو نہیں لیا ہوا؟ ابھی تو ابتدا ہے:
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

یہ وادی نہ صرف یہ کہ سیر و سیاحت بلکہ کئی اور حوالوں سے بھی ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ لوگوں کی مہمان نوازی، خوش گفتاری، مثبت رویوں اور اقدار سے متعلق اکثر لوگ جانتے ہوں گے۔ آپس میں اتفاق و اتحاد ، حسن سلوک اور بھائی چارے کی فضا کی ہر گھر اور درو دیوار گواہی دے رہی ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا، یہاں کی دیگر منفرد اور دلِ خوش کن روایات میں سے ایک یہ ہے کہ عیدِ قربان پر خریدے گئے جانور رضاکاروں کے ذریعے کمیونٹی سنٹر میں جمع کرتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتاکہ ان جانوروں کا مالک کون ہے؟ نمازِ عید کے بعد قربانی دینے والوں کے حق میں دُعا کی جاتی ہے۔ پھر جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور بڑے احتیاط کے ساتھ گوشت کے برابر برابر حصے بنا کر یوں تقسیم کرتے ہیں کہ قربانی کرنے والے کو بھی اتنا ہی حصہ ملتا ہے، جتنا نہ کرنے والے کو۔ کہتے ہیں یہ صدیوں پرانی رسم ہے، جس کو یہاں کے رضاکار بطریق احسن سرانجام دیتے ہیں۔ خواتین گھرکا کام کاج بھی کرتی ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ بیرونِ خانہ بھی مصروف نظر آتی ہیں۔ سرکارمیں، اداروں میں، سکولوں، ہسپتالوں اور کچہریوں میں تو اُن کا کام سب کو نظر آرہا ہے لیکن جو کسی کو نظر نہیں آ رہا، وہ ہیں کھیتیاں اور مویشی، دونوں کی دیکھ بال اُن پر اتنا ہی لازم ہے، جتنا ہمارے بڑوں کے لئے قومی ترانے کے وقت باادب کھڑا ہونا لازم ہے۔ خواتین تعلیم کے حصول میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں اور مقابلوں کے امتحانات میں عمومی طور پر لڑکوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔ کھیل کود کی سرگرمیوں میں بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ فٹ بال میں تو مختلف گاؤں کی لڑکیوں کی ٹیموں کے بیچ باقاعدہ مقابلے بھی ہوتے ہیں، جو اُن میں میل جول، خود اعتمادی اور قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کا مؤجب بنتے ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہنزہ میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، لیکن یہ آفت یہاں بھی پنجے گاڑھ چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ مسگر پاؤر پراجیکٹ کی وجہ سے اَپر ہنزہ کے لئے جلد ہی بجلی کی ترسیل شروع ہو جائے گی۔ ٹھیک ہے، بجلی آئے یا نہ آئے۔ اب ہم اُمید کی بجائے جگنو روشن کرنا سیکھ چکے ہیں۔
چلو سوچوں کے جگنو پالتے ہیں
کہ اُمیدِ سحر باقی نہیں ہے
( جاری ہے)

………………

لفظونہ میڈیا کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔