حکمرانی بغیر تدبر کے بہت خطرناک ہوتی ہے۔ ایک جونیئر کلرک، ایک عام سپاہی یا ان کی سطح کا کوئی ملازم ہو اور یا بڑی حیثیت کا کوئی سردار، عام لوگوں کے لیے یہ سب حکمران ہوتے ہیں۔ بہتر نتائج کے لیے ان سب کا مدبر ہونا لازم ترین ضرورت ہوتا ہے۔ حکمرانی کرنے اور حکومت چلانے میں بہت سخت فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن دانشمندی اور تدبر سخت فیصلوں کو بھی آسان کردیتے ہیں۔
ایک حاکم یا ایک حکمران کے لیے دانشمندی اور عدل کے ساتھ فیصلے کی قوت اور اُس کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ قابل شخص وہ ہوتا ہے جو زیادہ خطرات اور زیادہ مشکلات والے کام حتی الامکان تدبر اور میٹھے انداز سے کرے۔ زیادہ مشکلات والے کام اور سخت ترین فیصلے صرف فوجی نکتہ نظر سے قابلِ قبول ہوتے ہیں۔ جہاں ملک و قوم کے دفاع کا سوال ہوتا ہے، وہاں غیر معمولی اقدامات جائز ہوتے ہیں۔ دوسرے معاملات میں زیادہ فائدے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
آج کل (اکتوبر 2017ء) مینگورہ کے دکاندار شدید پریشانی کا شکار ہیں اور یہ صورتحال حکومت کے غیر دانشمند اور تدبر سے عاری رویے نے پیدا کی ہوئی ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے عمدہ بیوروکریسی کو خود ختم کردیا ہے اور سرکاری و نیم سرکاری معاملات کے لیے اعلیٰ دماغ موجود نہیں ہے۔ ہمیں اس غلط خیال نے مروایا کہ بڑی تنخواہ بڑی ذمہ داری کی اہلیت ہے۔

ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے عمدہ بیوروکریسی کو خود ختم کردیا ہے اور سرکاری و نیم سرکاری معاملات کے لیے اعلیٰ دماغ موجود نہیں ہے۔ ہمیں اس غلط خیال نے مروایا کہ بڑی تنخواہ بڑی ذمہ داری کی اہلیت ہے۔

کسی محکمے کے اہلکاروں نے مینگورہ بازار کے دکانداروں کو ڈرایا ہے کہ بازار کی وسعت کے لیے اُن کی دکانوں اور پلازوں کو گرایا جائے گا۔ اس سے دکانداروں کے اندر خوف اور پریشانی کا پیدا ہونا قدرتی بات ہے۔ سڑکوں کو وسیع کرنا واقعی وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کسی اقدام سے فساد اور بربادی تو زیادہ نہ ہوگی۔ بے شک سوات میں دکانداروں نے ایسی غلطیاں کی ہیں کہ پشتو کہاوت ’’تو تو راشہ ما اوخرہ‘‘ کے مصداق انہوں نے خود حکومت کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ اپنی بہت زیادہ طاقت کے بل بوتے پر مینگورہ کے بازاروں میں ایسے تجاوزات دکاندار حضرات نے کئے ہیں جن کی وجہ سے بازاروں کی سڑکیں بھی تنگ پڑ گئیں اور محکموں والوں نے یہ سوچا کہ سڑکوں (بازاروں) کو کشادہ کیا جائے۔ لیکن بال اب بھی دکانداروں کے کورٹ میں ہے۔ وہ اگر چاہیں، تو ہر قسم کے تجاوزات کو ختم کرکے بازار کی سڑکوں کو آرام دہ بناسکتے ہیں۔ سنا ہے کہ دکاندار حضرات حکومت یا کسی محکمے کے اس مسماری والے پروگرام کے خلاف عدالت میں گئے ہیں۔ اگر ایسا ہے، تو ہم اس پر زیادہ تفصیل کے ساتھ نہیں لکھ سکتے۔ البتہ یہ عرض کرتے ہیں کہ:
1:۔ کیا کسی شہر کے بازار شاہراہوں کی تعریف میں آتے ہیں؟ میرے خیال میں مینگورہ شہر کے وہ بازار جن سے مسافر بردار بڑی بسیں، مال بردار بڑے ٹرک باقاعدہ نہیں گزرتے وہ فی زمانہ شاہراہ کی تعریف میں نہیں آتے۔ اس لیے دکانداروں کو ہراساں کرنا غلط بات ہے۔ پھر اس مسماری والی سوچ کے منفی اثرات کا بہت زیادہ امکان ہے۔
2:۔ اس خیال کے تحت مردان کالام؍ الپوریٔ شاہراہ بلوگرام بائی پاس چوک (تک ہے) پھر بلوگرام سے فضاگٹ بائی پاس چوک اور وہاں سے آگے سڑک شاہراہ کی تعریف میں آتی ہے۔ اندرونِ شہر کی سڑکیں شاہراہ کی تعریف میں نہیں آتیں۔ حکومت کو دکانداروں کی تسلی کروانی چاہئے۔
3:۔ ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو بدنام کرنے کے لیے ’’م ل ن‘‘ خفیہ کارڈ استعمال کر رہی ہے۔ سنا ہے کہ شاہراہوں کی وسعت و مرمت کا کام ایک مرکزی محکمے کے ساتھ ہے۔ اس لیے مرکزی حکمران جماعت خفیہ طریقے سے صوبائی حکمران جماعت کو نیچا دکھانا چاہتی ہے۔ میرا خیال غلط بھی ہوسکتا ہے لیکن سیاسی افراد کی تاریخ اس قسم کی جوڑ توڑ سے بھری ہے۔
4:۔ یہ ذمہ داری مینگورہ سیدوشریف کے ایم این اے صاحب کی ہے کہ وہ گراسی گراؤنڈ میں کسی جمعے کے دن مینگورہ کے دکانداروں سے خطاب کرکے اُن کی تسلی کروائیں کہ اُن کی دکانوں کو مسمار نہیں کیا جارہا ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ واقعی بازار کی مسماری (جو کھربوں روپوں کا معاملہ اور بہت بڑی فساد والی بات ہوگی) ہوگی، تو اُن کو فوراً اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اور متعلقہ محکمے کے وزیر اور اعلیٰ ترین آفیسرز کے نوٹس میں لانا چاہئے، لیکن بچکانہ جذباتی انداز سے نہیں بلکہ تدبر اور دلیل کے ساتھ۔
5:۔ دکاندار حضرات خود ہر اُس رکاؤٹ کو دور کریں جو بازار کو تنگ کرتی ہے۔ انہوں نے پکی سیمنٹ سے نہ صرف نالیوں کو اوپر سے بند کیا ہوا ہے بلکہ پکا کنکریٹ بعض دکانداروں نے نالیوں کے اندر بھی ڈالا ہے۔ اس طرح بہت سارے مالکانِ دکان نے کنکریٹ کے ذریعے پانی کا رُخ نالی سے بازار کی طرف مڑوادیا ہے۔ یہ سب رکاؤٹیں اگر اتفاق کے ساتھ دور کروائی جائیں، تو شاید حکومت بھی نرمی کرے۔ کاروبار کے نام پر مینگورہ میں گاڑیوں، رکشاؤں، موٹر سائیکلوں اور ہتھ ریڑھیوں کی تعداد اُن کی جگہ جگہ بے ہنگم پارکنگ نے نہ صرف انسانی زندگی کو مشکل بنادیا ہے بلکہ حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے۔ اتفاق کرکے ان رکاؤٹوں کو دکاندار لوگ کم سے کم کروادیں۔ سوات میں قوانین سے روگردانی اور عمال کو رشوت دینے کے جرائم بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔
6:۔ دکاندار طاقتور لوگ ہیں۔ وہ اگر حکومت کے ساتھ مل کر مینگورہ کے بیس میل کے دائرے میں عمدہ اومنی بس سروس نجی شعبے میں باقاعدہ شروع کروادیں، تو ذاتی کار سے پھیلنے والے مسائل کم ہوجائیں گے۔ دکانداروں کی یونین، کمشنر صاحب کے ذریعے سرکاری محکموں کو مجبور کروادیں کہ وہ اخلاقی حدود کے اندر قوانین کی حکمرانی کو یقینی بنوادیں۔ قوانین توڑنے سے ہی مشکلات بڑھتی ہیں۔
7:۔ پردہ نشین ایم این ایز اور ایم پی ایز، سرکاری افسران اور مارکیٹ کی اشرافیہ کے ساتھ ماہانہ میٹنگز کا طریقۂ اختیار شروع کریں اور ایسے طریقے تلاش کروائیں کہ مسائل بھی حل ہو جائیں اور دکانداروں کا خوف اور پریشانی بھی دور ہوجائے۔
8:۔ ایک دکاندار نے مجھ سے درخواست کی کہ میں یہ ضرور لکھوں کہ محکمہ خوراک اور دوسرے محکمے دکانوں کے معائنے کبھی کبھار نہ کریں بلکہ نامعلوم ایام پر ہر مہینے کیا کریں، تاکہ ہماری تربیت ہو۔ اُس نے یہ بھی تجویز کیا کہ تقریباً تمام کے تمام جعلی اور دو نمبر کی اشیا بھی پنجاب ہی سے آتی ہیں اور لالچ دے کر یہاں مارکیٹ کروائی جاتی ہیں۔ ان کی صوبے میں درآمد حکومت ہی کرسکتی ہے۔ جعلی اشیا سختی کرکے صوبے کی سرحدات پر روکی جائیں۔