دن گیارہ بجے ہمارے ’’صبح سویرے‘‘ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ بسم اللہ، تیسری صبح ہے۔ ’’فریضۂ ناشتہ‘‘ کی انجام دہی کے بعد قافلہ، وادیٔ ُہنزہ پر حملہ آور ہونے نکل پڑتا ہے۔ درجن بھر لوگ، تین گاڑیوں کے انجن، موبائل فونز کے بھرپور شور شرابے، جتنی مُنھ اتنی باتیں اور سامانِ رقص و سرود کے ساتھ ہنزہ جیسے خاموش اور پُرامن علاقے کی طرف نکل پڑتے ہیں، تو ایسے قافلہ کو ’’حملہ آور‘‘ کہنے میں کیا قباحت ہے؟ پورے راستے میں انسانوں کے ساتھ ساتھ پھلوں کے باغات، سفیدے کے پودے، پھول، فصلات اور جھاڑیاں یہاں تک مٹی اور پتھر ہر آنے جانے والے کے ساتھ بغل گیر ہونا چاہتے ہیں۔ پیار و محبت کا درس اور امن و آشتی کے گیت گا نا چاہتے ہیں۔ سات ہزار نو سو کلو میٹر پر پھیلی اور سطحِ سمندر سے آٹھ ہزار دو سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ وادی، شاہراہِ قراقرم پر گلگت سے قریباً سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جہاں ڈیڑھ دو گھنٹے میں آسانی کے ساتھ پہنچا جاسکتا ہے۔ زبان یہاں کی ’’بروشسکی‘‘ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی مشکل ترین بولیوں میں سے ایک ہے۔ عجب ہے، اتنے پیارے، نرم دل اور خوبصورت لوگ اتنی مشکل زبان کیسے بول لیتے ہوں گے؟ ویسے یہاں ’’شینا‘‘ اور ’’واخی‘‘ زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ اردو تو ہر کوئی بولتا، لکھتا، پڑھتا اور سمجھتا ہے۔ پورے ملک کے مقابلے میں ہنزہ کے لوگوں کی اوسط عمریں بھی زیادہ ہیں اور تعلیم کے میدان میں بھی یہ لوگ سب سے اونچے درجے پر فائز ہیں، شرحِ خواندگی نوے فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک یہاں پر مقامی راجہ کی حکومت ہوتی تھی، جس کو ’’میر آف ہنزہ‘‘ کہا جاتا تھا، تاہم ریاستی دور کے خاتمے کے ساتھ یہ سلسلہ بھی انجام کو پہنچ گیا۔ ’’میر آف ہنزہ‘‘ کا سات سو سال پرانا بلتت قلعہ دیکھنے کی جگہ ہے، جہاں جانے والوں کی تاریخ ’’برہنہ‘‘ پڑی، آنے والوں کو دعوتِ دیدار کے ساتھ دعوتِ سوچ و فکردے رہی ہے۔ ہنزہ کوئی جائے اور یہ قلعہ نہ دیکھے، تو یہ اس کے استحقاق مجروح ہونے کے مترادف ہے۔ ہنزہ کے اکثر لوگ عید کی قربانی باجماعت کرتے ہیں۔ وہ ہماری طرح قربانی کا گوشت فریجوں اور فریزروں میں ’’اگلی نسلوں‘‘ کے لئے محفوظ نہیں کرتے بلکہ ہرگھرمیں برابر برابر تقسیم کرکے قصہ خلاص کر دیتے ہیں۔

سات ہزار نو سو کلو میٹر پر پھیلی اور سطحِ سمندر سے آٹھ ہزار دو سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ وادی، شاہراہِ قراقرم پر گلگت سے قریباً سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جہاں ڈیڑھ دو گھنٹے میں آسانی کے ساتھ پہنچا جاسکتا ہے۔ زبان یہاں کی ’’بروشسکی‘‘ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی مشکل ترین بولیوں میں سے ایک ہے۔ عجب ہے، اتنے پیارے، نرم دل اور خوبصورت لوگ اتنی مشکل زبان کیسے بول لیتے ہوں گے؟

سوات کی طرح ہنزہ بھی کسی مخصوص شہر کا نہیں بلکہ پوری وادی کا نام ہے۔ ضلع کرک کی طرح یہاں بھی بیرونی لوگوں کو زمین یا پراپرٹی فروخت نہیں کی جاتی۔ کہیں کسی مجبوری کے تحت فروخت کرنا پڑے، تو بڑی تحقیق و تفتیش کے بعد ایسا کرتے ہیں۔ کریم آباد اور علی آباد صاف ستھرے اور سیاحت کے لئے مشہور شہر ہیں، جہاں بہت سارے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں سستے ریٹس پر کمرے مل سکتے ہیں۔ لفظ ’’آباد‘‘ تو ہر گاؤں، بستی اور ٹاؤن کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ علی آباد، عطا آباد، حسین آباد، جمال آباد، عافیت آباد، سو آن اینڈ سو فورتھ۔ خدا سب کو شاد و آباد رکھے، آمین۔ چلیں،سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ’’دینور‘‘ کے مقام پر ’’راکاپوشی‘‘ کا دیدارکرتے ہیں۔
راکا پوشی کی چوٹی ۷۷۸۸ میٹر بلند ہے۔ بلندی کے حساب سے یہ پاکستان میں بارہویں نمبر پر ہے۔ راکاپوشی کا مطلب ہے ’’برف سے ڈھکی چوٹی۔‘‘ دینور کے زیرو پوائنٹ سے اس کا منظر بہت ہی خوبصورت اورروح پرور لگتا ہے، جسے دیکھتے ہی آدمی کا آگے جانے کو من نہیں کرتا اورسوچتا ہے کہ بس یہیں کا ہو کر رہ جائے۔ یوں لگتا ہے جیسے برف کی دیوار آسمان اور پہاڑ ی کے بیچ ’’دیوارِ چین‘‘ بنی ایک کو دوسرے سے پَرے رکھنے پر مامور ہو، ورنہ یہ’’ با وضو و باحیا آسمان‘‘ تو اس کا بوسہ لینے لگتا دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دونوں’’ سٹیکس‘‘ یعنی آسمان اور پہاڑی کو اپنی اپنی حدود و قیود میں پابند رکھنے کی ذمہ داری اِس برفیلی چوٹی نے سر پر اُٹھائی ہو۔ لگتا ہے جیسے یہ ترچھی برفیلی چوٹی آسمان کے حضور اور آسمان چوٹی کے احترام میں’’ رکوع ریز‘‘ ہو گیا ہو۔ لگتا ہے کوئی محبوب اور محبوبہ دیدار کی تڑپ دِل میں لئے ایک دوسرے میں’’ مَرج‘‘ ہونے کو بے چین ہوں، لیکن وادیٔ ہنزہ کی سماجی حدود و قیود ایسا ’’خوشگوار وقوعہ‘‘ ہونے میں رکاوٹ ڈال رہی ہوں۔ کسی ’’اَنہونی صورتحال‘‘ سے نمٹنے اور حجاب کی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے بادلوں کی چادر چھانے کو ہر پل رَڈی رہتی ہے۔ اسی لئے اس چوٹی پر بادل اور دُھند کا مستقل بسیرا رہتا ہے۔ ہمارے پہلو میں ایک مقامی باشندہ کھڑا ہے۔ چہرہ اُس کاراکاپوشی کی طرف ہے۔ بائیں ہتھیلی کے ذریعے پیشانی کے اوپر سایہ پھیلائے ہوئے ہے۔ نظریں چوٹی پرجمائے، دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سیدھی بادلوں کی طرف کئے ہوئے، ہماری طرف دیکھے بغیر بولتا ہے: ’’یہاں کے لوگ اسے دُر نانی بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے دُھند کی ماں۔ کہتے ہیں کہ اس کو ابھی تک کسی نے سر نہیں کیا۔‘‘

راکا پوشی کی چوٹی ۷۷۸۸ میٹر بلند ہے۔ بلندی کے حساب سے یہ پاکستان میں بارہویں نمبر پر ہے۔ راکاپوشی کا مطلب ہے ’’برف سے ڈھکی چوٹی۔‘‘

طلوع و غروبِ آفتاب کے وقت یہاں پر سورج کی کرنوں کے نظارے تو بہت لوگوں نے دیکھے ہوں گے، لیکن طلوعِ ماہتاب کا اور خاص کر چودھویں کی چاند کا نظارہ بہت کم لوگوں نے کیا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ اس برفیلی چوٹی کو دیکھ کر چاند کی ملائم کرنیں شرم و حیاسے مُرجھا کر ’’رول بیک‘‘ کر جاتی ہیں، اپنی بے وقعتی پر سُست پڑ جاتی ہیں۔ اس کے خمار میں مست ہو کر چاند کیا، انسان کیا، حیوان کیا، چرند و پرند بھی ہوش و حواس کھو جاتے ہیں۔ ہم نہیں قمر جلالویؔ کہتے ہیں کہ
اس وقت تک رہے گی قیامت رُکی ہوئی
جب تک رہے گا آپ کا چہرہ نقاب میں
ایسے میں وہ ہوں، باغ ہو، ساقی ہو، اے قمرؔ
لگ جائیں چار چاند شبِ ماہتاب میں
اُٹھیں جی! دن ڈھلتا جا رہا ہے۔ ہم نے راکا پوشی سے آگے بھی جانا ہے۔ اس منظر کا عکس دماغ پر چھایا قافلہ آگے ’’موؤ‘‘ کرتا ہے۔ مہربانی ہے چین کی کہ ہماری گاڑیوں کی حالتِ زار پر ترس کھاتے ہوئے بہترین سڑک بنوائی ہے۔ گاڑیاں جس پر ایسی دوڑ رہی ہیں جیسے کسی ’’رن وے‘‘ پر جہاز۔ باغات میں سیب کے درخت اپنی شاخوں پر سُرخ سُرخ سیب لٹکائے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں۔ یہ ابھی کٹھے ہیں، سو ہم ان کے دھوکے میں آئے بغیر اپنی توجہ جگہ جگہ سفیدے کے درختوں کے جنگل پر مرکوز کرتے ہیں جو ماحول کو رونق، شائستگی اور ’’خایست‘‘ عطا کرتا ہے۔ سفیدے کے یہ درخت بڑے سیدھے سادے اور پرہیزگار لگتے ہیں۔ ہمارے والے تو ہمارے جیسے بے ڈولے، بے ڈھنگے یا سردار جیسے بے ادب اور گنجلک لگتے ہیں۔ ہنزہ میں سی پیک کا شور و غوغا ہے۔ درخت اور باغات کاٹنے کے لئے آرے اور کلہاڑے تیز کئے جا رہے ہیں۔ کھیت اور کھلیان، سیمنٹ اور سریا کے ڈھیروں میں ڈبونے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔
کریم آباد سے سیدھے سیدھے گزرتے ہیں، لیٹ ہو جائیں گے، تو خنجراب درے کا دیدار نہیں ہو سکے گا۔ وہاں جانے کے لئے تین بجے سے پہلے ’’سوست‘‘ پہنچنا لازمی ہے۔ اب تو کریم آباد خوبصورت ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور گیسٹ ہاؤسز کا مرکز بن گیا ہے۔ کریم آباد کا بازار مقامی ثقافتی اشیا سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں پر موجود میر کا پرانا گھر ’’بلتت قلعہ‘‘ یہاں کی اہمیت و خوبصورتی کو دوبالا کرتا ہے۔
ویسے ہنزہ کے حسن و جمال کا، درونِ شہر کا، کھانوں کا اور لوگوں کی محبتوں کا لطف اُٹھانے کے لئے مبنی برانصاف بات یہ ہے کہ تین چار دنوں کے لئے یہاں ٹھہرنا چاہئے۔ ہم نے وہاں ایک دن گزارا تھا ااور ابھی تک افسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے کفرانِ نعمت کیوں کیا؟ موسمِ خزاں میں تو یہاں کے رنگا رنگ نظارے آدمی کو کسی اور جہاں میں پہنچاتے ہیں۔

ویسے ہنزہ کے حسن و جمال کا، درونِ شہر کا، کھانوں کا اور لوگوں کی محبتوں کا لطف اُٹھانے کے لئے مبنی برانصاف بات یہ ہے کہ تین چار دنوں کے لئے یہاں ٹھہرنا چاہئے۔

اے نظارو،گواہ رہنا، اے ’’خزانو،‘‘ گواہ رہنا
(جاری ہے)

…………..

(لفظونہ میڈیا کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں)