دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکی افواج نے ایٹم بم گرائے، تو اس کی تباہ کاری نے نہ صرف ان دونوں شہروں کو برباد کیا بلکہ اس انسانیت سوز واقعہ نے پوری دنیا کو گویا ہلا کر رکھ دیا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں انسانی آبادی پر ایٹم بم گرانے کا نہ صرف پہلا اور آخری موقع ثابت ہوا بلکہ یہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کا سبب بھی بنا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپان کی معیشت اور معاشرتی ڈھانچہ بھی تباہ حال ہوچکا تھا۔ پوری دنیا اس کشمکش میں تھی کہ آیا تباہ حال جاپان دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے گا، یا ہمیشہ کے لئے کسی اپاہج شخص کی طرح ایک غریب ملک ہی رہے گا۔ لیکن جاپان کی باہمت قوم نے دوبارہ دنیا کی ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ اقوام کے ساتھ چلنے کا مصمم ارادہ کیا اور اس بہاد ر قوم نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ بالفاظ دیگر اس قوم نے نہ صرف تباہ حال معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ پور ی دنیا میں تیز رفتا ر ترقی کا ریکارڈ بھی بنایا۔ آج جاپان نہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی بلکہ اعلیٰ تعلیم میں دنیا کی صف اول اقوام میں شامل ہے۔

جب ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکی افواج نے ایٹم بم گرائے، تو ان کی تباہ کاری نے نہ صرف ان دونوں شہروں کو برباد کیا بلکہ اس انسانیت سوز واقعہ نے پوری دنیا کو گویا ہلا کر رکھ دیا۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جاپان کی ترقی کے پیچھے تعلیم کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ علم ہی سے معاشرے تہذیب یافتہ بنتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج جاپان میں یونیورسٹیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جاپان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ یونیورسٹیاں قائم اور فعال ہیں۔ انہی یونیورسٹیوں میں ایک کیوٹو یونیورسٹی بھی شامل ہے جو جاپان میں رینکنگ کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ ایشیا کی یونیورسٹیوں کی ریکنگ میں تیسرے نمبر پر ہے، جو تقریباً ایک سو پچاس سال پہلے یعنی 1897ء میں قائم ہوئی۔

حال ہی میں میرے جاپان کے دورے میں مجھے اس عالیشان درسگاہ جانے کا موقع ملا۔ وہاں جا کر مجھے پتا چلا کہ اس یونیورسٹی میں اردو زبان کی بیس ہزارسے زائد کتب ہیں جو پاکستان، اسلام، جنوبی ایشیا کی تاریخ، ادب، سماجیات، لسانیات، فلسفہ، صوفی ازم اور بہت سے دوسرے مضامین کا احاطہ کرتی ہیں۔ مذکورہ کتب یہاں عقیل کلیکشن سے موسوم ہیں۔ مجھے اس یونیورسٹی میں موجود چند سکالرز سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا، جنہیں پاکستان جانے کا موقع ملا تھا۔ وہ اس حوالہ سے کافی علم رکھتے تھے۔ وہ اپنی یونیورسٹی میں پاکستان اور اردو زبان کی اتنی زیادہ تعداد پر خوش بھی تھے۔
’’کینو شیتا ہیدامی‘‘ جوکیوٹو یونیورسٹی میں ایشیا اور افریقہ کے گریجویٹ سکول کی ایشین سٹڈیزکی لائبریرین ہیں، نے کہا کہ اردو زبان اور پاکستان پر کتابوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ’’برٹش لائبریری‘‘ میں ہے۔ کویوٹو یونیورسٹی کی ایشیا اور افریقہ سیکشن لائبریری اردو اور پاکستان پر کتابوں کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستان اور اردو زبان کی اتنی زیادہ کتابوں کے ذخیرے پر خوشی ہے۔

کیوٹو یونیورسٹی جا کر مجھے پتا چلا کہ اس یونیورسٹی میں اردو زبان کی بیس ہزارسے زائد کتب ہیں جو پاکستان، اسلام، جنوبی ایشیا کی تاریخ، ادب، سماجیات، لسانیات، فلسفہ، صوفی ازم اور بہت سے دوسرے مضامین کا احاطہ کرتی ہیں۔

اتنی بڑی تعداد میں کتابیں اصل میں کراچی کے مشہور سکالر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ذاتی لائبریری کی ہیں۔ معین الدین عقیل صاحب کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے پروفیسر اور چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بحیثیت ڈین فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں۔

کیوٹو یونیورسٹی تحقیق کے لئے جانی جاتی ہے اور یہاں تحقیق کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی لئے اس یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دنیا کے دوسرے ممالک اور زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا بڑا ذخیرہ اپنی لائبریریوں میں جمع کررکھا ہے، تا کہ یہاں پڑھنے والے طلبہ اور محققین کو تحقیق میں آسانی ہو۔

اتنی بڑی تعداد میں کتابیں اصل میں کراچی کے مشہور سکالر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ذاتی لائبریری کی ہیں۔ معین الدین عقیل صاحب کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے پروفیسر اور چیئرمین رہ چکے ہیں۔

’’سومیتومیزو ساوا ‘‘جو گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو زبان میں ڈپلومہ کرچکے ہیں اور اردو لکھنے اور پڑھنے کے علاوہ روانی سے بو ل بھی سکتے ہیں، یہاں سے پی ایچ ڈ ی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان میں اتنا بڑا ذخیرہ پاکر وہ انتہائی خوش ہیں۔ وہ مجھے خوشی خوشی عقیل کلیکشن لے جاکر کتابیں دکھانے لگا۔ اس نے کہا کہ انہیں منٹو کے افسانے، غالبؔ، فیضؔ اور اقبالؔ کی شاعری پسند ہے۔ اس نے کہا کہ ان کے ادبی کاموں کے جاپانی زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ اس نے اقبالیات پر اوساکا یونیورسٹی کے پروفیسر ’’سویا مانے یاسر‘‘ کا اردو مقالہ جاپان بھی بھیجا۔

’’آئیومو کونا سوکاوا‘‘جو پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور جنوبی ایشیائی سڈیزکے ریسرچ فیلو ہیں، بھی تھوڑی تھوڑی اردو سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے ’’انڈس سیولائیزیشن‘‘ کے آثارِ قدیمہ پراپنی تحقیق پشاور یونیورسٹی سے کی ہے۔ وہ پاکستان سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ قابل دید اور یہاں کے لوگ دوستانہ ہیں۔ انہوں نے مستقبل میں پاکستان کے آثار قدیمہ پر کام کرنے کی امید بھی ظاہر کی ہے۔