کہتے ہیں کہ دورِجدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیم کے حصول کے بغیر کوئی بھی قوم عالمی سطح پر نمایاں پوزیشن حاصل نہیں کر سکتی ۔ اس حقیقت کو مدِنظر رکھ کر عالمی سطح پر صف اول میں اپنے لئے جگہ بنانے کی خاطر دُنیا بھر کی تمام اقوام اپنی نئی نسل کو زیورِتعلیم سے آراستہ کرنے کی بھاگ دوڑ میں تمام تر وسائل بروئے کار لانا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔حال ہی میں ایک بین الاقوامی دانشور نے دعویٰ کیا ہے کہ دُنیا بھر میں مفلسی کی زندگی گزارنے والے ممالک کی ناکامی کی ایک اہم وجہ تعلیم سے دوری ہے ۔جن ممالک نے تعلیم کو اپنا نصب العین بنایا ہے ،ان کی معاشی، معاشرتی حتیٰ کہ دفاعی صورتحال آئے روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔
قارئین کرام! ملکی سطح پر ہمارے تعلیمی نظام کو اگر دیکھا جائے، تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں با اختیار طبقے کی طرف سے تعلیمی اصلاحات کے نام پر طلبہ و طالبات کے ساتھ مذاق کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔جس کا اندازہ تعلیم یافتہ طبقے کی بے ایمانی اور فرائض منصبی میں دلچسپی نہ لینے سے باآسانی ہوتا ہے۔کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ جب آپ کے نصاب میں وہ خصوصیات ہی موجود نہ ہو ں جن کی بنیاد پر انسان تعلیمی میدان سے فراغت کے بعد انتہائی اہم اور حساس نشستوں پر بیٹھ کر ملکی سلامتی اور قومی خدمت کے جذبے کے پیش نظر ڈیوٹیاں سرانجام دے سکیں ،تو اس صورت میں عوامی سطح پر لوگ بہت تیزی کے ساتھ اداروں سے مایوس ہوتے جا تے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے دفاعی اداروں میں ڈیوٹی انجام دینے والے نوجوان جذبہ دینِ اسلام کے پیش نظر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے، ورنہ اس کے علاوہ تو ہر جگہ اندھیرنگری ہے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی میں سربراہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس کے حوالے سے باشعور افراد کے ذہن آج تک تذبذب کا شکار ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ مہذب اقوام کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ بہت سبق آموز بن جاتا ہے جبکہ ہماری جیسے قوموں کے لئے اس طرح کا واقعہ روز کا معمول ہوتا ہے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی میں سربراہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس کے حوالے سے باشعور افراد کے ذہن آج تک تذبذب کا شکار ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ مہذب اقوام کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ بہت سبق آموز بن جاتا ہے جبکہ ہماری جیسے قوموں کے لئے اس طرح کا واقعہ روز کا معمول ہوتا ہے۔

سیاسی محاذ آرائی ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔سیاسی اختلاف ہی کی وجہ سے آج بہت سارے سکولز، یونیورسٹیاں اور دیگر ادارے سیاسی مخالفت کا شکار ہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں سربراہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس کے حوالے سے باشعور افراد کے ذہن آج تک تذبذب کا شکار ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ مہذب اقوام کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ بہت سبق آموز بن جاتا ہے جبکہ ہماری جیسے قوموں کے لئے اس طرح کا واقعہ روز کا معمول ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا سانحہ رونما ہونے کے باوجود آج تک ہم اسی طرح کی غیر یقینی صورتحال کی روک تھام کے پیش نظر ڈیوٹیوں پر کڑی نظر رکھنے کی بجائے دیگر تعلیمی اداروں کو بھی اپنے سیاسی انتقام اور تنگ نظری کی وجہ سے سربراہ سے محروم رکھنے جیسے عزائم سے باز نہیں آتے۔جس کا واضح ثبوت سوات یونیورسٹی ہے۔ جو ایک طویل عرصہ سے سربراہ یعنی وائس چانسلر سے محروم ہے ۔

باخبر ذرائع کے مطابق بہت سے فارغ طلبہ و طالبات ایسے ہیں کہ جن کی ڈگریاں ’’وی سی‘‘ کے دستخط کے منتظر ایک عرصہ سے یونیورسٹی کے سردخانہ میں پڑی ہوئی ہیں ۔جبکہ یہی ڈگری ہولڈرز اگر ایک طرف وائس چانسلر کے آنے کے منتظر ہیں تو دوسری طرف دن رات اسی سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ کہیں ہم ’’Over Age‘‘ نہ ہوجائیں۔

باخبر ذرائع کے مطابق بہت سے فارغ طلبہ و طالبات ایسے ہیں کہ جن کی ڈگریاں ’’وی سی‘‘ کے دستخط کی منتظر ایک عرصہ سے یونیورسٹی کے سردخانہ میں پڑی ہوئی ہیں ۔جبکہ یہی ڈگری ہولڈرز اگر ایک طرف وائس چانسلر کے آنے کے منتظر ہیں تو دوسری طرف دن رات اسی سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ کہیں ہم ’’Over Age‘‘ نہ ہوجائیں۔

باخبر ذرائع کے مطابق بہت سے فارغ طلبہ و طالبات ایسے ہیں کہ جن کی ڈگریاں ’’وی سی‘‘ کے دستخط کی منتظر ایک عرصہ سے یونیورسٹی کے سردخانہ میں پڑی ہوئی ہیں ۔جبکہ یہی ڈگری ہولڈرز اگر ایک طرف وائس چانسلر کے آنے کے منتظر ہیں تو دوسری طرف دن رات اسی سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ کہیں ہم ’’Over Age‘‘ نہ ہوجائیں۔ یہ سوات یونیورسٹی ہی ہے کہ جس نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے این او سی کے بغیر طالب علموں کوایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے دیئے ہیں۔ حالانکہ ہائیرایجوکیشن کمیشن کی طرف سے سوات یونیورسٹی کوایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلہ کا اجازت نامہ تاحال نہیں ملا ہے۔

چترال کی ایک یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے فرمایا کہ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ ہمارے ملک کے بیس سالہ تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ میراخیال ہے کہ خان صاحب کو اس طرح کی مثالوں سے قوم کو مزید مایوس کرنے کی بجائے فوری طور سوات یونیورسٹی کے لئے وائس چانسلر کی تعیناتی پر غور کرناچاہئے تاکہ ڈگری کے منتظر طلبہ و طالبات کا مستقبل تباہی سے بچایا جا سکے۔

چترال کی ایک یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے فرمایا کہ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ ہمارے ملک کے بیس سالہ تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ میراخیال ہے کہ خان صاحب کو اس طرح کی مثالوں سے قوم کو مزید مایوس کرنے کی بجائے فوری طور سوات یونیورسٹی کے لئے وائس چانسلر کی تعیناتی پر غور کرناچاہئے تاکہ ڈگری کے منتظر طلبہ و طالبات کا مستقبل تباہی سے بچایا جا سکے۔

مجھے اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ میری یہ ٹھوٹی پھوٹی تحریر ان بے یار و مددگار طلبہ و طالبات کے مسائل حل نہیں کر سکتی، لیکن کم از کم دل کو تسلی دینے کی خاطر یہ اُمید بھی رکھتا ہوں کہ شائد بے چینی اور بے یقینی کے اس عالم میں عین ممکن بھی ہے کہ اس سیاسی ہجوم میں اگر کوئی اس حوالے سے خواب خرگوش سے بیدار ہو کر بات کرنا بھی چاہے، تو مسائل بیان کرنے میں انہیں دشواری درپیش نہ ہو۔
چترال کی ایک یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے فرمایا کہ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ ہمارے ملک کے بیس سالہ تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ میراخیال ہے کہ خان صاحب کو اس طرح کی مثالوں سے قوم کو مزید مایوس کرنے کی بجائے فوری طور سوات یونیورسٹی کے لئے وائس چانسلر کی تعیناتی پر غور کرناچاہئے تاکہ ڈگری کے منتظر طلبہ و طالبات کا مستقبل تباہی سے بچایا جا سکے۔