آج کل سوشل میڈیا شاید مین سٹریم میڈیا سے زیادہ اِفادیت اور اثر رکھتا ہے۔ ریڈیو ایجاد ہوا، تو اس تک صرف ایلیٹ کلاس کی رسائی ممکن تھی۔ اسی طرح آج اگر ہر گھر میں ٹی وی نہ ہو، تو انٹرنیٹ کی سہولت تو ضرور میسر ہوگی۔ رہی سہی کسر تب پوری ہوئی جب تھری جی ٹیکنالوجی نے عام صارف کو سوشل میڈیائی دنیا سے واقف کرا دیا۔ سوشل میڈیا، جہاں ایڈیٹر کے ناز نخرے جھیلنا پڑتے ہیں اور نہ اپنا ٹیلنٹ دکھانے کے لئے کسی کی منت سماجت درکار ہوتی ہے۔ گذشتہ کئی سال سے فیس بک جیسے پلیٹ فارم پر ایسے ایسے شاہکار سامنے آئے ہیں کہ جنہوں نے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مین سٹریم میڈیا کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔ میری طرح اوسط درجے کا لکھاری ہو یا گائک، اداکار ہو یا دوسری صلاحیت کا حامل شخص، ہر ایک سوشل میڈیا کی بہتی گنگا میں فراخ دلی کے ساتھ اشنان فرما کر خود کو منظر عام پر لا رہا ہے۔
’’آور وائنز‘‘ نامی پیج جو ایک بہترین ٹیم پر مشتمل ہے، مختصر ویڈیوز سے ناظرین کو اپنی سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔ اس ٹیم کی ویڈیوز میں انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ اکثر کچھ نہ کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ آج سے تقریباً ایک سال پہلے جب میں نے ان کی ایک ویڈیو دیکھی، تو داد دیئے بنا نہ رہ سکا۔ کمال کے کیمرہ ورک، ایڈیٹنگ اور نیچرل اداکاری نے ان کو ایک مؤثر ٹیم بنا دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ’’آور وائنز‘‘ نامی ٹیم طلبہ پر مشتمل ہے جو ممکنہ طور پر اپنی جیب خرچ سے ناظرین کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے ان کی ویڈیوز تب کھٹکنا شروع ہوئیں جب میں نے ان میں اسلحہ کلچر کا رواج پنپتے پایا۔ پہلے پہل لگا کہ یہ محض ایک دو ویڈیوز کی بات ہوگی اور وہ بھی صرف اپنے چاہنے والوں کو محظوظ کرنا مقصود ہوگا، لیکن جیسے جیسے ان کی مزید ویڈیوز دیکھتا گیا، اسلحہ دیکھنے کو ملتا رہا۔ بار بار اسلحہ کے مناظر میرے طبع نازک پر کچھ ناگوار گزرے۔ اسلحہ کے حوالہ سے بتاتا چلوں کہ یہ آج کل پختونوں کا درد سر بنا ہوا ہے۔ کوئی پختونوں کو اسلحہ کے بغیر نامکمل قراردیتا ہے، تو کوئی اسلحہ کو پختونوں کا زیور گردانتا ہے۔
اب چوں کہ میڈیا نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں بنا کر رکھ دیا ہے، دنیاکے کسی بھی کونے میں رہنے والے مختلف قومیت کے لوگوں کے بارے میڈیا ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے۔ ایسے میں جہاں ’’آور وائنز‘‘ کو اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے پختونوں کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے لانا چاہئے تھا، وہاں یہ حضرات اپنی ویڈیوز میں بار بار یہ باور کرانے کو شش کرتے ہیں کہ ہاں، ہم اسلحہ کے بغیر ادھورے ہی ہیں۔ اسلحہ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے اور یہی ہمارا زیور۔ اِن کے مطابق پختونوں کو غصہ بہت آتا ہے۔ یہ مہذب دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ایک پختون چوبیسوں گھنٹے اپنے ساتھ انواع و اقسام کا اسلحہ رکھتا ہے۔ بڑی تعداد میں ’’فین فالوونگ‘‘ کے خمار میں ان کی مستی کا یہ عالم ہے کہ بار بار انہیں اسلحہ کلچر کی موجودگی اور حقیقت کے مابین موجود تضاد بارے کمنٹس میں بتایا بھی جاتا ہے، لیکن یہ ان تمام تر تحفظات کو ایسے نظر انداز کردیتے ہیں، جیسے یہ حضرات ایک بار ویڈیو ’’اَپ لوڈ‘‘ کرنے کے بعد ستو پی کر سو جاتے ہیں۔

’’آور وائنز‘‘ کو اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے پختونوں کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے لانا چاہئے تھا، وہاں یہ حضرات اپنی ویڈیوز میں بار بار یہ باور کرانے کو شش کرتے ہیں کہ ہاں، ہم اسلحہ کے بغیر ادھورے ہی ہیں۔ اسلحہ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے اور یہی ہمارا زیور۔

ہم پشتو فلم انڈسٹری کا رونا روتے تھے کہ وہ پختون کلچر کو حقیقت کے برعکس پیش کرتی ہے۔ توقع تھی کہ پختون نوجوان معاملہ کی نوعیت کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے، کتاب کلچر کو فروغ دیں گے، اپنی امن پسندی سے پختونوں سے منسوب تمام غلاظتوں کو غلط ثابت کریں گے، لیکن شومئی قسمت کہ ہماری مذکورہ نوجوان ٹیم ’’تال سے تال ملا کر‘‘ پختون دشمنوں کے ساتھ مل گئی۔ ہر وہ شخص پختون دشمن ہے جو پختونوں کی نئی نسل کو اسلحہ کی جانب راغب کرتا ہے۔ ہر وہ شخص پختون دشمن ہے، جو حقائق کے برعکس پختونوں کی عکاسی کرتا ہے۔

ہم پشتو فلم انڈسٹری کا رونا روتے تھے کہ وہ پختون کلچر کو حقیقت کے برعکس پیش کرتی ہے۔ توقع تھی کہ پختون نوجوان معاملہ کی نوعیت کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے، کتاب کلچر کو فروغ دیں گے، اپنی امن پسندی سے پختونوں سے منسوب تمام غلاظتوں کو غلط ثابت کریں گے، لیکن شومئی قسمت کہ ہماری مذکورہ نوجوان ٹیم ’’تال سے تال ملا کر‘‘ پختون دشمنوں کے ساتھ مل گئی۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں ایسا کرنے پر کوئی فنڈنگ تو نہیں کر رہا؟ کیا یہ پختون نہیں ہیں، جو اپنی دھرتی، اپنے لوگوں کے ساتھ غداری کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ ان کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟
سو باتوں کی ایک بات’’آور وائنز ٹیم‘‘ اپنی ویڈیوز میں جس کلچر کا ذکر کرتی ہے، پختونوں کا کلچر اس سے متصادم ہے۔
شاید یہ اصل پختون نہیں بلکہ ’’لنڈے کے امپورٹڈ پختون‘‘ ہیں۔