ایک حکیم اور دانا کا قول ہے کہ اگر انسان کے اعضا سلامت، حسیات (Senses) ٹھیک اور عقلِ سلیم ساتھ ہو، تو گویا دنیا کی اصل نعمتیں اُسے حاصل ہیں اور یہ اس کے لیے صبر و شکر اور اطمینان کا مقام ہے…… لیکن انسان کی فطرت ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ ’’ہل من مزیدـ‘‘ یعنی مادی فوائد کے حصول کے لیے ہمیشہ بے چین اور پریشان رہتا ہے اور انعاماتِ خداوندی کو بھلا کر نا شکری کا اظہار کرتا ہے۔ اس بارے اللہ تعالا قرآنِ کریم میں بھی فطرتِ انسانی سے متعلق فرماتا ہے: ’’ان الا انسان لربہٖ لکنود!‘‘ یعنی ’’بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘ یہ دنیا دارالامتحان کے ساتھ ساتھ دارالمصائب بھی ہے۔ یہاں ہمیشہ کوئی شخص خوشحال نہیں رہ سکتا۔ کبھی خوشی کبھی غم…… لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سدا ناخوش ہوتے ہیں…… جس کی واحد وجہ ناشکری ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ اس دنیا میں گدڑی پوش خوش و خرم رہتے ہیں۔ رحمان بابا کہتے ہیں:
خوخ بہ نہ شے پہ حرص بے قناعتہ
اے پہ تخت د اورنگ زیب ناستہ گدایہ
اس کے برعکس کئی لوگ ریشم اور کم خواب کے بستروں میں ساری رات کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ آسائشیں ان کے لیے بے چینی کا باعث ہوتی ہیں۔ دراصل اطمینانِ قلب کوئی اور چیز ہے جو خوشی دینے اور بانٹنے سے ملتی ہے…… اور جب انسان دوسروں کا برا سوچتا ہے، تو کڑھتا ہے، جلتا ہے اور خوشی اور اطمینان ہمیشہ اس سے روٹھا رہتا ہے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
غور کا مقام ہے کہ ہمارے ارد گرد موجود لوگ عموماً چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہوتے ہیں۔ آپ کسی بچے کو ٹافی دیں، بیوی کو کوئی تحفہ لا کر دیں، اپنے میاں کے لیے کوئی میٹھی چیز پکائیں، رشتہ داروں کا حال پوچھیں، پڑوسی اور محلہ دار کی خیریت دریافت کریں، ان کے ہاں کچھ سالن یا فروٹ بھیجیں، طالب علم کو قلم اور اپنے استاد کو کوئی تحفہ عنایت کریں یا محلے کی مسجد کے پیش امام اور مؤذن کو کوئی بھی چیز پیش کریں، تو یقین کریں خوشی دینے اور بانٹنے سے خود بھی خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ کیوں کہ خوشی ایک ایسی روشنی ہے کہ جس پر ڈالیں وہ بارونق ہوجاتا ہے اور جس منبع سے یہ نکلتی ہے وہ بھی خوش۔
سرورِکائنات حضرت محمدؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’اپنے مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے۔‘‘ لہٰذا خوشی کے اظہار کے لیے مسکرانا بھی کافی ہے جو فریقین پر خوشگوار اثر ڈالتا ہے…… جب کہ غصہ کرنے سے مختلف قسم کے جسمانی اور نفسیاتی عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ انسانی اعضا میں تناؤ پیدا ہوتا ہے اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ انسان کو زندگی میں ضرور مصائب و آلام پیش آتے ہیں…… جب کہ دائمی خوشیاں تو اگلی جہاں میں مسلمان کو ملیں گی۔ لہٰذا اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے یعنی دوسرے لوگوں کی دلجوئی کرنا اور ساتھ رہنے والوں کے حق کا خیال رکھنا چاہیے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔