کسی جانور کو اپاہج کرنے کے لیے اس کے پیر توڑ دیے جاتے ہیں۔ کسی قوم کو اپاہج کرنے کے لیے اُس کے لوگوں کو توڑا جاتا ہے۔ اُن سے اُن کی قوتِ ارادی چھین لی جاتی ہے۔ اُن کی تقدیر پر اپنے مکمل کنٹرول کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اُن پر یہ بات واضح کر دی جاتی ہے کہ یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ کسے زندہ رہنا ہے، کسے مر جانا ہے، کسے خوشحال ہونا ہے اور کسے بدحال رہنا ہے؟ اپنی صلاحیت کی نمائش کرنے کے لیے ان کو دکھایا جاتا ہے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں اور کس آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ کس طرح ہم صرف بٹن دبا کر پوری زمین کو نیست و نابود کرسکتے ہیں۔ کیسے جنگ شروع کرسکتے ہیں اور امن قائم کرسکتے ہیں۔ کس طرح ایک شخص سے اس کی ندی چھین کر دوسرے شخص کو دے سکتے ہیں۔ کس طرح ایک صحرا کو سرسبز کر سکتے ہیں یا جنگل کو اُکھاڑ کر اسے دوسری جگہ اُگا سکتے ہیں۔ اپنی من مانی کر کے قدیم چیزوں……زمین، جنگل، پانی اور ہوا پر لوگوں کے بڑے بڑے گروہوں کے یقین کو مجروح کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ صرف ہم! وہ ہمارے پاس آئیں گے، کیوں کہ ہمارے سوا ان کے پاس کچھ نہیں۔ وہ ہم سے نفرت کرنے کے باوجود ہم سے محبت کریں گے۔ وہ ہمیں اچھی طرح جاننے کے باوجود ہم پر بھروسا کریں گے۔ وہ ہمیں ووٹ دیں گے۔ حالاں کہ ہم نے ان کے جسموں سے زندگی کی آخری رمق تک نچوڑ لی ہے۔ ہم انہیں جو کچھ پینے کو دیں گے، انہیں وہی پینا ہوگا۔ ہم انہیں جیسی ہوا مہیا کریں گے، انہیں اسی میں سانس لینا ہوگا۔ ہم جہاں ان کا سامان دھر دیں گے انہیں اسی جگہ رہنا ہوگا۔ اس کے سوا وہ کر کیا سکتے ہیں؟ اُن کے لیے اس سے اونچی کوئی عدالت نہیں۔ ہم ان کے مائی باپ ہیں۔ ہم جج بھی ہیں اور جیوری بھی۔ ہم پوری دنیا ہیں۔ ہم خدا ہیں!
طاقت صرف اُس چیز سے مضبوط نہیں ہوتی جسے وہ تباہ کرتی ہے، وہ اُس چیز سے بھی مضبوطی حاصل کرتی ہے جسے اس نے تخلیق کیا ہو؛ صرف اس چیز سے نہیں جو وہ لیتی ہے بلکہ اس چیز سے بھی جو وہ دیتی ہے۔ اور ناطاقتی بھی صرف اُس چیز سے گہری نہیں ہوتی جس سے کسی کو محروم کر دیا گیا ہو…… بلکہ ان لوگوں کی شکر گذاری سے بھی جنہوں نے اس سے کچھ فائدہ حاصل کیا ہو (یا انہیں گمان ہو کہ انہیں فائدہ حاصل ہوا ہے)
موجودہ زمانے کا، سرد سانچے میں ڈھلا اقتدار بظاہر جمہوری دستوروں کی بظاہر محترم شقوں کے درمیان حفاظت سے بیٹھا ہے۔ اسے استعمال کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں بظاہر آزاد شہریوں نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے لیکن اس سے پہلے انسانی تہذیب کی تاریخ کے کسی زمانے کے کسی بادشاہ، کسی مطلق فرماں روا، کسی آمر کے پاس ایسے ہتھیار نہیں تھے جیسے ان کے پاس ہیں۔
ایک ایک دن، ایک ایک ندی، ایک ایک جنگل، ایک ایک پہاڑ، ایک ایک میزائل، ایک ایک بم کے ذریعے سے ہمیں غیر محسوس طور پر مسلسل توڑا جا رہا ہے۔
(ارُندھتی رائے کے مضمون ’’ عظیم تر اجتماعی مفاد‘‘ سے اقتباس کا ترجمہ)
………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔