قارئین! ’’اور چوپو‘‘ دراصل پنجابی زبان کے الفاظ ہیں کہ جن کا اُردو ترجمہ بنتا ہے ’’اور چوسو!‘‘
یہ ایک طرح سے پنجابی کی ضرب المثل ہے کہ جس کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دو چرسی محلہ سے باہر کھلے میدان میں نشہ کر رہے تھے۔ جب چرس خوب ان کے دماغ پر اثر انداز ہوئی، تو ایک چرسی بولا کہ یار! یہ جو سامنے خالی میدان موجود ہے…… اگر یہاں ہم گنے کی فصل کاشت کردیں، تو بہت منافع بخش ہوگا۔
دوسرا بولا، بات تو تمھاری صحیح ہے لیکن یہ سوچ لو کہ ہم مصروف لوگ ہیں۔ فصل تو ہم کاشت کر دیں گے…… لیکن اس بات کا خطرہ بلکہ یقینی ہے کہ جب گنا پک جائے گا، تو پڑوس کی خالہ جنت کا بیٹا ہماری عدم موجودگی میں تمام گنا کاٹ کر چوس لے گا۔
اس کے جواب میں پہلا بولا، اس کی یہ جرأت……! چلو اس کو ابھی سے سیدھا کرتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، دونوں نے ڈنڈے اٹھائے اور سیدھے خالہ جنت کے گھر پہنچ گئے۔ اور خالہ جنت کے بیٹے کو دیکھتے ہی اس پر ٹوٹ پڑے۔ وہ اس کو مارتے جاتے اور ساتھ کہتے جاتے ’’اور چوپو!‘‘
لڑکا بے چارہ چیختا جاتا اور پوچھتا جاتا کہ میراقصور کیا ہے؟ لیکن وہ مارتے جاتے۔ محلہ کے لوگ اکٹھے ہوگئے پولیس آگئی اور جب ان سے استفسار کیا گیا اس مار کٹائی کا، تو انہوں نے یہ جواز پیش کہ ہم نے یہ کام متوقع خطرہ کے پیشِ نظر کیا۔
یہ ضرب المثل یا آپ لطیفہ کہہ لیں، مجھے اُس وقت یاد آیا جب میں نے ٹیلی وِژن پر ایک سری لنکن کارکن کا قتل دیکھا۔ اب تک کی جو معلومات سامنے آئی ہیں…… ان کے مطابق مذکورہ سری لنکن منیجر کا قصور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس نے رنگ کروانے کی وجہ سے دیوار کی صفائی کا پروگرام بنایا اور دیوار پر موجود ایک اشتہار کہ جس کے اوپر ’’لبیک یا حسین‘‘ لکھا ہوا تھا، اتار پھاڑ کر کوڑے دان میں ڈال دیا۔ بس اس قصور پر ہجوم اکٹھا ہوگیا اور اس پر توہینِ رسالتؐ کا الزام لگایا اور اس کو مار مار کر نہ صرف قتل کر دیا…… بلکہ لاش کو بھی جلا دیا۔
دوسری طرف یہ خبر بھی میڈیا کی زینت بن رہی ہے کہ اصل میں اس قتل کے پسِ پردہ وجوہات اور ہیں۔ کچھ فیکٹری کے ملازمین منیجر کے رویہ سے خوش نہ تھے۔ کیوں کہ منیجر ان کو کام میں دیانت داری کا درس دیتا تھا اور ملازمت میں سستی کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ سو باقاعدہ ایک ’’پلان‘‘ بنا کر یہ حرکت کروائی گئی۔ سو یہاں پر ’’اور چوپو!‘‘ والی مثال ’’فِٹ‘‘ آتی ہے۔
اﷲ بخشے سابقہ ’’امیر المومنین‘‘ حضرت جرنل محمد ضیاالحق رحمۃ اللہ علیہ کو……! آپ آئین شکن آمر تو تھے ہی…… لیکن اپنی حکومت کی مضبوطی واسطے مرحوم (کہ جو کچھ لوگوں کے لیے ’’شہید‘‘ بھی ہیں) نے دینِ خاتم النبین و سید المرسلینؐ کا اندھا دند استعمال کیا۔ اور جہاں اور بہت سی قباحتیں آئیں، وہاں توہینِ مذہب کے ایشو کو بھی عوامی سطح پر اس طرح پھیلایا گیا کہ تقریباً تمام قوم کو اس میں ملوث کر دیا۔ اب جب کہ قوم کی اکثریت مذہبی طور پر اتنی باعلم تو نہیں…… جب کہ عمل میں ناقص تر ہے۔ سو ان کے راہنما مفاد پرست ملا بن گئے اور ہمارے اکثر مولویوں نے اس کو اپنے مفادات میں استعمال کرنا شروع کردیا۔
اگر نیت صاف ہو…… لیکن آپ معصومیت میں کچھ کر دیں، تو چلو کسی حد تک توجیح بنتی ہے…… جیسے ممتاز قادری کے معاملے پر ہوئی…… لیکن اگر بنیاد سے ہی مفادات ہوں، تو پھر کیا توجیح بن سکتی ہے؟
ہمارے ملک میں کتنے ہی ایسے کیس رپورٹ ہوئے۔ فیصل آباد میں شمع اور اس کا شوہر جو بھٹا کارکن تھے۔ پھر آسیہ والا کیس۔ پھر پشاور مشال والا کیس۔ پھر قائد آباد بنک والا کیس اور ایسے درجنوں شاید اور۔
اب جب کہ ’’مردِ مومن مردِ حق‘‘ تو موجود نہیں کہ جس نے دین جیسے مقدس و محترم نظریہ کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے بے دریغ استعمال کیا، تو اس قانوں میں بنیادی جامعیت لانا بہت ضروری ہے۔
مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ شخص بذاتِ خود گستاخی اور توہین کا مرتکب ہوتا ہے کہ جو جان بوجھ کر اپنے دنیاوی مفادات کے تحت کسی دوسرے شخص پر یہ مکروہ اور انتہائی خطرناک الزام لگاتا ہے۔ منطق کے تحت یہ بات سو فی صد درست ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والا خود اس جرم کا اتنا ہی مجرم ہوتا ہے۔ سو آپ اگر اس قانون میں محض اتنا اضافہ کردیں کہ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ الزام جھوٹا اور جان بوجھ کر لگایا گیا، تو الزام لگانے والے پر خود بخود توہین ثابت ہو جائے گی اور اس کی سزا بھی بہرحال موت ہی ہے، تو یقینا اس سے کافی بہتری ہوگی۔
اب ہوتا کیا ہے کہ چوں کہ امتِ محمدیہؐ کے لیے یہ جرم کسی بھی صورت یا شکل میں قابلِ قبول نہیں۔ امت کا ایک جذباتی تعلق اس سے وابستہ ہے، تو مفادات پرست کرتے کیا ہیں کہ کسی پر یہ الزام دھر دیتے ہیں اور پھر جذباتی لوگ بنا تحقیق، بنا سوچے سمجھے ایک دم سے ایک جتھے کی شکل میں ملزم پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اب بعد میں اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ الزام غلط تھا، تو الزام لگانے والا یہ کہہ کر محفوظ ہو جاتا ہے کہ میں نے تو ایکشن نہیں کیا۔ سلمان تاثیر کے معاملے میں یہی تو ہوا۔ ممتاز قادری کے مطابق اس نے یہ اقدام ایک بہت مشہور عالم کی بات سن کر کیا…… اور وہ مولوی صاحب عدالت میں یہ حلف نامہ دے آئے کہ ’’مَیں تو ممتاز قادری کو جانتا بھی نہیں۔ باقی اس نے میری بات کی اگر تشریح اپنے عقل سے کی ہے، تو ہم ذمہ دار نہیں۔‘‘
اب مفتی حنیف سے یہ سوال قانون نہیں کر سکتا کہ جناب جب آپ کو معلوم ہے کہ یہ کتنا جذباتی معاملہ ہے اور آپ کی زبان سے نکلا ایک ایک لفظ کتنا اثر انداز ہو سکتا ہے، تو پھر آپ نے یہ بات عوام میں کی ہی کیوں؟
دوسری بات…… جب سلمان تاثیر اس کے بعد مسلسل یہ کہتا رہا کہ ’’مَیں ایم ڈی تاثیر کا بیٹا ہوں کہ جس کے گھر سے غازی علم شہید کے لیے چارپائی گئی تھی۔ مَیں نے تنقید اس قانون پر کی جو ضیاء الحق نے بنایا تھا۔ کسی شرعی قانون یا (معاذ اﷲ) توہینِ رسالتؐ بارے تو میں سوچ بھی نہیں سکتا! تو پھر آپ نے اسی طرح ’’پبلکلی‘‘ اپنے فتوے کو واپس کیوں نہ کیا؟‘‘
لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح مشال کیس میں کیا گیا۔اول نوجوانوں کو بھڑکانے والے کا مقدمہ علاحدہ کر کے بنایا گیا۔ اب آپ ایک ہجوم پر مقدمہ قائم کرتے ہیں، تو ظاہر ہے اس کا فیصلہ سول عدالت میں ممکن ہی نہیں…… اور اس کو ثابت کرنا ناممکن ہے۔ آپ بس یہ قانون میں اضافہ کر دیں کہ ’’جھوٹا الزام‘‘ لگانے والا بھی اسی طرح کا مجرم ہے اور جھوٹے مدعی پر مقدمہ اس قانون کے تحت ہو۔ باقی اگر ہجوم کوئی عمل کرتا ہے، تو ان پر مقدمہ علاحدہ ہو، پھر کم از کم اتنی جلدی اور فوری فتوا دینے والے سو بار سوچیں گے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج تک گستاخی کرنے والے مبینہ اشخاص کا قتل بذاتِ خود کسی مفتی یا مولوی نے نہیں کیا۔ مثلاً سلمان تاثیر گورنر تھا۔ اس تک عام آدمی کی پہنچ نا ممکن تھی…… لیکن مذکورہ مفتی حضرت کی طرح دیگر کی بہت آسان۔ سو خود جاکر اس کو مار دیتے۔ مطلب ایسے عناصر اس کو محض کسی اور واسطے استعمال کرتے ہیں…… نہ کہ اس کی روح کے محافظ ہیں۔
بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ حنیف ڈار صاحب چلو بعد ہی اس کو ’’اُون‘‘ کرتے اور فخر سے کہتے کہ یہ سوال نہیں کہ ’’مَیں ممتاز قادری کو جانتا ہوں یا نہیں…… لیکن مجھے فخر ہے کہ اس نے مجھے سن کر یہ کام کیا۔‘‘ آپ اس معصوم شخص کو چھوڑ کر مجھ پر مقدمہ بنائیں…… لیکن ایسا ہوا……؟
یہ سوال بہت قابلِ غور ہے۔ ہم بطورِ ملک اور من حیث القوم اگر یہاں تک پہنچے ہیں…… تو اس کی کلی نہیں تو جزوی ذمہ داری بہرحال 80ء کی دہائی کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ خصوصاً ضیاء الحق اور ان کے حواریوں کی ہے۔ انہوں نے افغان جنگ میں ہمارے بچوں کو محض امریکی ایندھن بنانے کے لیے مذہب کا بے تحاشا استعمال کیا اور جو شروع مَیں ہم نے مثال یا لطیفہ بیان کیا ہے…… اب دل تو کرتا ہے کہ اس دور کا اگر کوئی ضیاء کا ساتھی ملے، تو اس کو ضرور بولوں کہ’’اور چوپو!‘‘ کیوں کہ آپ نے ایک غیر ملکی جنگ، غیر ملکی ایجنڈے کی خاطر اپنے بچوں کو اس طرح مروا دیا جس طرح کہ ان دو چرسیوں نے متوقع خطرے کے پیشِ نظر خالہ جنت کے بیٹے کی درگت بنائیں گے۔
کیا ایک عقلِ سلیم رکھنے والا عام سا انسان بھی یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ روس کی افغان آمد جو کہ باقاعدہ اس وقت کی افغان حکومت کی تحریری درخواست پر آئی تھی…… پاکستان پر بلکہ ایک ایٹمی پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کیوں کرتا؟ اور اگر وہ یہ حماقت بالفرض کربھی لیتا، تو تب بھی آپ کے پاس یہ آپشن تو موجود تھا…… لیکن سچ یہی ہے کہ روس کیمونسٹ افغان بچانے آیا تھا…… وہاں قبضہ کرنے نہیں…… اور آپ نے خواہ مخواہ گرم پانیوں پر قبضہ کی ایک نہایت ہی کھوکھلی اور 200 فی صد غلط تھیوری خود ہی تخلیق کی اور خود ہی متوقع خطرہ بنا لیا…… اور اپنے ملک کو جہاں ایک طرف مذہبی جنونیوں کے حوالے کر دیا…… وہاں دوسری طرف خیبر سے کراچی تک اپنی دھرتی کو لہو لہو کردیا۔ آپ نے یہ ایسا زہریلا پودا لگا دیا کہ جو اَب تنا ور درخت بن چکا ہے اور اس کو ختم ہونے میں شاید ہمیں مزید پچاس برس لگیں۔
اُس دور کے ضیائی گماشتوں اور نام نہاد جہادیوں کے لیے ہماری طرف سے بس یہی دو لفظ کافی ہیں کہ’’اُور چوپو!‘‘
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔