سردی کا سیزن شروع ہوچکا ہے، مگر سردی ابھی اتنی سخت نہیں۔ کیوں کہ بارشوں کا سلسلہ رُک چکا ہے۔ سورج کی تمازت برقرار ہے۔ یہ سب ’’گلوبل وارمننگ‘‘ ہے یا کچھ اور……! لیکن یہ بات طے ہے کہ آئے روز موسموں کے تغیر و تبدل نے معمولاتِ زندگی میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ سردی ہو یا نہ ہو…… پت جھڑ کا موسم عروج کی طرف رواں دواں ہے۔ کسی خاص درخت پر توجہ مرکوز رکھیں، تو معلوم ہوجائے گا کہ کل کی نسبت آج وہ زیادہ لنڈ منڈ ہے۔ سدا بہار درختوں کی بات اور ہے۔ موسمی درختوں کے پتے گرنے لگے ہیں۔ پتے جب خشک ہو کر درخت سے گرتے ہیں، تو سرخی مائل رنگ لے کر بالکل ’’کرارا پاپڑ‘‘ بن کر پاؤں کے نیچے آتے ہی مخصوص آواز کے ساتھ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔
پت جھڑ کے اس موسم کا انسانی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں……! کیا یہ زوال اور بے ثباتی کا ایک بین ثبوت ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کوئی عالم فاضل ہی دے سکتا ہے۔ البتہ مجھے کسی شاعر کے شعر کا ایک مصرعہ ضرور یاد آ رہا ہے۔ ملاحظہ ہو:
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
پھر زمانہ خود سرپٹ گھوڑے کی طرح بھاگم بھاگ دوڑ رہا ہے۔ زمانہ پر قابو کون پاسکتا ہے؟ بس وہی شہ سوار مانا جاتاہے جو زمانے کے ساتھ چلے۔
قارئین، جس ملک کے ہم باسی ہیں…… کیا وہ زمانے کے ساتھ چل رہا ہے؟ یہاں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ واقعات بدلتے رہتے ہیں۔ کسی ایک واقعے پر لکھ یا بول نہیں پاچکے ہوتے کہ ایک اور واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔ اس لیے موضوعات کے انبار لگ جاتے ہیں اور آپ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کس موضوع کو حوالۂ قلم کریں اور کون سے موضوع کو لذتِ کام و دہن کے لیے چھوڑیں؟
ایسے میں کچھ موضوعات ایسے بھی سامنے آتے ہیں جن پر نہ لکھا جائے، تو ضمیر پر بوجھ سا رہتا ہے…… اور اگر لکھا جائے، تو ’’امیر‘‘ ناخوش ہوتا ہے۔
ایسے موضوعات میں سے آج کل ایک علی وزیر کی قید اور سعد رضوی کی رہائی کا بھی ہے۔ ایک نے اداروں کو آئین و قانون میں رہنے کی تاکید کی۔ پختون علاقہ میں دہشت گردی کی پُرزور اور سخت مخالفت کی۔ ملک کو آئین کے تحت چلانے کی بات کی، تو وہ بے چارہ ممبر قومی اسمبلی ہوکر بھی ’’پابندِ سلاسل‘‘ ہے۔ وہ بھی ایک ایسے الزام میں جو نہایت بھونڈا سا ہے۔
دوسرا وہ ہے جس نے اپنے مریدوں سمیت کئی بار ریاست اور حکومت کو خطرے سے دوچار کیا۔ شاہراہیں بند کیں۔ نجی اور سرکاری اِملاک پر حملہ آور ہوئے۔ باوردی پولیس اہلکاروں کو خون میں نہلایا۔ پورے ریاستی نظام کو چیلنج کیا۔ معاملات خراب کر دیے۔ یہاں تک کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات کو پریس کانفرنس میں کہنا پڑا: ’’کالعدم تحریکِ لبیک کو بھارت سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔‘‘
ساتھ میں اس گروہ کو حکومت نے کالعدم قرار دے کر ’’عسکریت پسند‘‘ قرار دیا تھا…… مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ حکومت ’’سرنڈر‘‘ کرچکی۔ ریاست نے ’’معنی خیز خاموشی‘‘ اختیار کرلی اور جو کالعدم تھا، وہ چند دنوں بعد ’’مین اسٹریم‘‘ پولی ٹیکل پارٹی کی شکل میں تسلیم کیا گیا۔ گرفتار سیکڑوں ورکرز رہا کیے گئے اور بالآخر سربراہِ تحریک ’’سعد رضوی‘‘ بھی رہا کیے گئے۔ ایسے میں سوال تو بنتا ہے کہ بغیر عدالت، ضمانت اور انصاف کے ایک بندہ رہا ہوسکتا ہے، تو دوسری طرف ایک ممبر قومی اسمبلی کو ضمانت کیوں نہیں مل سکتی؟ کیا دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک کا تعلق پنجاب اور دوسرے کا پختونخوا سے ہے؟
یاد رہے کہ مجھے پی ٹی ایم یا تحریکِ لبیک کی سیاست نے کبھی متاثر نہیں کیا…… بلکہ میں دونوں کو ایک وسیع ایجنڈے کا حصہ سمجھتا ہوں…… لیکن جب آپ اس قسم کے اقدامات کرتے ہیں، تو اس قسم کے سوالات ضرور اٹھیں گے، جس سے ریاست کے مختلف حصوں میں مختلف احساسات جنم لیں گے۔ اس کا مطالعہ ہم بنگلہ دیش بننے کے واقعات سے کرتے چلے آ رہے ہیں اور جس کا مشاہدہ ہم بلوچستان میں بھی کر رہے ہیں…… اور جس کا خطرہ ہم پختونخوا میں بھی محسوس کر رہے ہیں۔ اس لیے احتراز برتتے ہوئے بھی ایسے موضوعات زیرِ قلم آتے ہیں۔ وگرنہ اس سہانے موسم میں دل کرتا ہے کہ کہیں دور پہاڑوں پر نکل کر دھوپ میں بیٹھ کے کوئی اچھی سی کتاب پڑھی جائے اور اچھی چائے کا ایک کپ انڈیلا جائے، تاکہ دل و دماغ تازہ ہوسکیں۔ وگرنہ کون جانے کہ سردی میں ’’سردی‘‘ کیوں نہیں…… اور پت جھڑ کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔