وزیرِ اعظم آفس سے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے تقریر کے احکامات جاری ہوگئے ہیں کہ جنرل ندیم انجم کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ وہ 20 نومبر 2021ء کو اپنا چارج سنبھالیں گے۔
اس سے تقریباً تین ہفتے پہلے پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی جگہ جنرل ندیم انجم کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعینات کرنے کی خبر میڈیا کو جاری کی تھی۔ جنرل ندیم انجم کی بطورِ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے تعین پر وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کا تعین میرے اختیار میں ہے۔ کسی کو تعین کرنے کے آرڈر مَیں ہی جاری کروں گا۔ کیوں کہ مَیں کوئی ’’ڈمی‘‘ وزیرِ اعظم نہیں ہوں۔ جنرل ندیم انجم کے تعین میں میرے ساتھ کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اُن کا تعین غیر قانونی ہے۔
وزیرِ اعظم عمرا ن خان کے اس فیصلے پر عوام، سیاسی عمائدین اور تجزیہ نگاروں کے کان کھڑے ہوگئے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں بیرسٹر اعتزاز حسن سے سوال پوچھا گیا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے تعین کے بارے میں آئینِ پاکستان کیا کہتا ہے؟ تو بیرسٹر اعتزاز حسن کا کہنا تھا کہ آئینِ پاکستان میں کوئی ایسی شق یا آرٹیکل موجود نہیں، جس میں یہ درج ہو کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی متعین کرنے کا اختیار وزیرِ اعظم کو حاصل ہے۔
تجزیہ نگاریہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی تو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کا تعین ہوا…… مگر اُن کے تعین کی سمری وزیرِ اعظم کو بھیجی گئی اور نہ اُن سے مشورہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم نے بھی کسی کے تعین پر اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ آئینی اختیارات رکھنے والے حکومتی سربراہ کی حیثیت اختیارات کی مرہونِ منت نہیں بلکہ اختیارات رکھنے والے کی مضبوطی کا انحصار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحہ یا ایک پیج پر ہونے یا نہ ہونے پر ہے۔
ہمارے ہاں منتخب اور اختیار رکھنے والے وزیرِ اعظم اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر نہ ہوں، تو عام طور پرمنتخب وزیرِ اعظم آئینی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود کم زور ہی نظر آتا ہے۔
ابہام پیدا ہونے کے بعد جنرل ندیم انجم کا بطورِ ڈی جی آئی ایس آئی تعین عوام کی نظروں میں ایک پیج پر ہونے کے تاثر کے لیے کیا گیا ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے قومی سلامتی کے ادارے کو بھی سیاست زدہ کر دیا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے 1974 ء میں سیاست دانوں کو قابو میں رکھنے کے لیے آئی ایس آئی میں ایک سیاسی سیل قائم کیا اور بعد میں وہ خود بھی اس کا شکار ہوگئے۔ بعد میں ہر آنے والے سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے سیاسی سیل کو ختم کرنے کی بجائے اسے اور بھی مضبوط کرتے ہوئے اس کا بے دریغ استعمال کیا۔ ہمارے ہر قومی الیکشن میں اس ادارے پر الیکشن میں ملوث ہونے اور جھاڑو پھیرنے کا الزام لگایا گیا۔ چاہے وہ ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ بنانے کاعمل ہو یا پاکستان کا مشہورِ زمانہ ’’اصغر خان کیس‘‘ ہو۔
جنرل حمید گل (مرحوم) جو ڈائریکٹر آئی ایس آئی تھے، نے برملا یہ اعتراف کیا کہ ہاں سیاسی اتحاد ’’آئی جے آئی‘‘ نامی تحریک میں نے بنائی تھی۔
آئی ایس آئی کے ایک اور سربراہ جنرل اسد درانی نے بھی سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ ہاں 1990ء کے قومی الیکشن میں آرمی چیف کے کہنے پر اپوزیشن جماعتوں میں رقم میں نے تقسیم کی تھی۔
اس وقت مسئلہ کسی کی تقریر یا تحریر کا نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے ایک ادارے کی ساکھ کا ہے۔ کیوں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ریاستی سلامتی ادارے کے سربراہ کے تعین کو ابہام کا شکار کیوں بنایا گیا اور اس ابہام کو دور کرنے کے لیے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی؟
ہمارے ہاں یہ ابہام صرف آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کے بارے میں نہیں بلکہ ہمارے دوسرے اداروں کے سربراہوں کے تعین کا مسئلہ بھی ابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان اداروں کے سربراہوں کی نامزدگی میں ابہام سیاسی نوعیت کا ہے۔ اگر اس ایک ابہام کو دور کیا جائے، تو تقرر کا عمل معمول کے مطابق ہوگا۔ کوئی بھی حکومت یہ ٹیکنکل یا فنی خرابی پارلیمان میں گھنٹوں میں دور کرسکتی ہے مگر ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اس کے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں۔
پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ آئینِ پاکستان کے تحت ہر ادارے کوحکومتِ وقت کے ماتحت ہونا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ آئینِ پاکستان میں حکومت کے ایک ماتحت ادارے کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹایا اور دوسری بار محمد خان جونیجو کو اقتدار سے محروم کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نواز شریف کو ہٹایا اور ایک ریاستی آئینی ادارے کے ججوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا۔
قارئین، میرا ذاتی خیال ہے کہ سیاسی رہنماؤں نے اگر یہ فنی خرابیاں اور ابہام دور نہ کیے…… تو پاکستان کا ہر سیاسی حکمران خود اس فنی خرابی کا شکار ہوگا اور نتیجتاً نقصان بھی اٹھائے گا۔
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔