لاہور میں پرانی انارکلی اور گورنمنٹ کالج کے پہلو میں ایک بازار ہے جسے ’’بانو بازار‘‘ کہتے ہیں۔ اس تنگ بازار میں خواتین کی ضرورت اور دلچسپی کی اشیا فروخت ہوتی ہیں۔ اس طرح کے بازار پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود ہیں…… جہاں 90 فی صد سے زیادہ آمد و رفت خواتین کی ہوتی ہے۔
بہاول پور میں بھی اس طرح کا ایک بازار ہے جسے ’’رنگیلا بازار‘‘ کہتے ہیں۔ ایسے بازاروں میں مائیں اپنی بہو بیٹیوں کے ساتھ خریداری کے لیے اس لیے جاتی ہیں کہ ایک تو یہاں مردوں کی آمد و رفت کم ہوتی ہے، دوسرا ضرورت کی ہر چیز سہولت سے مل جاتی ہے۔
مَیں یونیورسٹی کے فائنل ائیر کا طالب علم تھا، تو اپنے ایک دوست سے ملنے لاہور جایا کرتا تھا…… جو وہاں ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم تھا۔ یونیورسٹی کی ایک بس ’’ویک اینڈ‘‘ پر طالب علموں کو انارکلی تک لاتی اور لے جاتی تھی۔ ان میں سے اکثر طلبہ خریداری کے لیے جاتے تھے لیکن کچھ طلبہ صرف ’’بانو بازار‘‘ کا چکر لگانے کے لیے بس میں سوار ہوتے اور واپسی پر چاند چہروں اور ستارہ آنکھوں کا ذکر کرتے اور آہیں بھرتے۔ یہ لڑکے بانو بازار کے داخلی راستے پر کھڑے ہوتے اور آتی جاتی لڑکی کو گھورتے اور موقع ملنے پر اس تنگ بازار میں گھس کر ان کا پیچھا کرتے اور غیر ارادی طور پر ان کو چھونے کی اداکاری کرتے۔ ان میں سے ایک لڑکا جو بانو بازار کے چکر لگانے کا عادی اور میرے دوست کا کلاس فیلو تھا…… جب میری اس سے ذرا سی بے تکلفی ہوئی، تو مَیں نے اس سے پوچھا کہ اُسے بانو بازار جاکر گھٹیا حرکتیں کرنے سے کیا ملتا ہے؟ وہ اس دن موڈ میں تھا۔ اس نے سگریٹ کا کش لگایا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا: ’’بات دراصل یہ ہے کہ میرا تعلق لیہ سے ہے۔ مَیں نے ایف ایس سی میں بہت اچھے نمبر لے کر یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔ میری جوانی کا زیادہ حصہ سائنس پڑھنے بلکہ رٹے لگانے میں گزر گیا۔ میرا خیال تھا کہ لاہور آکر مجھے کوئی ’’نفسانی آسودگی‘‘ میسر آئے گی…… مگر یہاں آکر بھی وہی پڑھائی اور بس۔ مَیں نے آج تک کسی لڑکی کو چھو کر نہیں دیکھا…… بلکہ قریب سے بھی نہیں دیکھا۔ مَیں بانو بازار اس لیے جاتا ہوں کہ وہاں خوب صورت چہرے دیکھ کر یا کسی بہانے سے انہیں چھو کر میرے جنسی احساسات کی تسکین ہوجاتی ہے۔‘‘
اس بات کو 20 برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے…… مگر آج بھی میں جب اس نوجوان کی جنسی نا آسودگی کے بارے میں سوچتا ہوں، تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب پاکستانی معاشرے میں یہ معاملہ زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں معصوم بچوں سے لے کر نوجوان لڑکے لڑکیاں، دفتروں میں ملازمت پیشہ خواتین، عاملوں اور پیروں سے تعویذ لینے والی عورتیں، ہسپتالوں میں کام کرنے والی نرسز، گھروں کی نوکرانیاں، ہوائی جہاز کی ائیرہوسٹس بلکہ کسی بھی شعبے میں کام کرنے والی دخترانِ ملت ہمارے معاشرے کے جنسی درندوں سے محفوظ نہیں…… اور اس پر ظلم یہ کہ ان درندوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ہمارے ملک میں کوئی موثر قانون نہیں…… اور اگر ہے، تو اس پر عمل درآمد میں مدتیں لگ جاتی ہیں۔ معلوم نہیں پاکستان سمیت بیشتر مسلمان ممالک کے لوگوں میں دولت کے حصول کی خواہش اور جنسی تسکین کی ہوس اس قدر شدید کیوں ہے؟ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہوس بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
آج سے 40 برس قبل پاکستان میں ہزاروں سنیما گھر تھے۔ میلے ٹھیلوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ سرکس لگتے تھے۔ ہر شہر میں مختلف کھیلوں کے سالانہ مقابلے ہوتے تھے۔ موسیقی کی بڑی بڑی محفلیں ہوتی تھیں…… جن میں بڑے بڑے عوامی فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جشنِ بہاراں منایا جاتا تھا، یعنی عوامی تفریح کے لیے طرح طرح کے اہتمام ہوتے تھے۔ جب سے عوامی تفریح کے یہ ذرائع ہماری معاشرتی زندگی سے ختم ہوئے…… یا کم ہونا شروع ہوئے، اس وقت سے ہمارے عوام رفتہ رفتہ نفسیاتی گھٹن کا شکار ہوگئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے وہ سب کچھ ایک موبائل فون میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے جس سے انسانی جذبات کی تسکین ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام ’’پورنو گرافی‘‘ کی ویب سائٹس اور لنکس کو فالو کرنے والوں کی فہرست میں ٹاپ کے چند ملکوں میں شامل ہیں…… جس کا نتیجہ جنسی جرائم کی شکل میں ہر روز ہمارے میڈیا کی ’’زینت‘‘ بنتا ہے۔
مَیں جب اس جنسی گھٹن کا موازنہ یورپ اور خاص طور پر برطانیہ سے کرتا ہوں، تو کئی حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔ برطانیہ میں جو گورے یا انگریز بچے پیدا ہوتے ہیں، وہ بچپن ہی سے اپنی ماؤں، بہنوں اور رشتے دار خواتین کو سکرٹ یا منی سکرٹ اور کھلے گلے والے چست لباس میں دیکھتے ہیں۔ گھر میں اپنے والدین کو ایک دوسرے سے ملتے اور رخصت ہوتے وقت بوسہ لیتے ہوئے اور بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ گرمیوں میں ساحلِ سمندر پر والدین کے ساتھ چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں، تو مردوں اور عورتوں کو نیم برہنہ دیکھتے ہیں۔ جب یہ بچے سنِ بلوغت کو پہنچتے ہیں، تو ان کے لیے عورت کا جسم یا اس کا لباس انہیں جنسی ہوس کے جذبات ابھارنے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ویسے بھی یہاں لڑکے اور لڑکیوں کی اکثریت جوان ہونے تک اپنے پارٹنر کا انتخاب کرلیتی ہے اور سیکنڈری سکولوں میں طالب علموں کو سیکس ایجوکیشن (جنس کے بارے میں تعلیم) کے ذریعے سے ان کے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں اور احساسات سے بھی خاطر خواہ آگاہ کردیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں کالج اور یونیورسٹی تک نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کی جسمانی ساخت کے بارے میں تجسس رہتا ہے۔ لڑکوں کے لیے کسی لڑکی کا کھلے گلے والا یا چست لباس ان کے جنسی جذبات بھڑکانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی جنسی نا آسودگی نے ہمارے معاشرے کی لڑکیوں اور عورتوں کو بہت غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ ’’پورنو گرافی‘‘ کی ویب سائٹس سے لطف اندوز ہونے والے مرد اور لڑکے جب کسی باپردہ لڑکی یا عورت کو بھی کسی جگہ دیکھتے ہیں، تو انہیں ایسے گھورتے ہیں جیسے اُن کی آنکھوں سے نکلنے والی جنسی شعاعیں صنفِ مخالف کے جسم سے آر پار ہو رہی ہوں…… یا پھر عورت کو دیکھتے ہی انہیں ناف کے نیچے شلوار میں خارش کرنے کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔ یہی جنسی ناآسودگی انہیں مجبور کرتی ہے کہ موقع ملنے پر وہ عورتوں پر آوازیں کسیں…… یا ان کو چھوئیں…… یا پھر اُن پر کسی اور طرح جنسی حملہ کردیں۔
رہی سہی کسر ہمارے بعض مولویوں نے پوری کردی ہے جو حوروں کے نقشے اس انداز سے کھینچتے ہیں کہ سننے والوں پر جنسی جذبات غالب آنے لگتے ہیں۔ جنسی نا آسودگی کی وجہ ہی سے آج پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی دیواریں مردانہ کمزوری کے علاج کے اشتہاروں سے ’’مزین‘‘ نظر آتی ہیں۔ یہ کس قدرتلخ حقیقت ہے کہ مسلمان معاشروں میں عورت کی عزت غیرمسلم معاشروں کے مقابلے میں زیادہ غیر محفوظ ہے۔
برطانیہ میں کسی لڑکی یاعورت کو اس کی مرضی کے بغیر چھونا…… یا اس کا پیچھا کرنا سنگین جرم ہے۔ برطانیہ میں اگر کوئی مرد کسی عورت کو مسلسل گھورنے لگے، تو اُسے ’’نفسیاتی مریض‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ دفتر یا کام کی جگہوں پر اگر کوئی مرد ایک دوسرے کے بارے میں کوئی جنسی تبصرہ کریں…… یا لطیفہ سنائیں…… یا کوئی ایسی تصویر دکھائیں…… یا ای میل ایک دوسرے کو بھیجیں…… جو جنسی معاملات سے متعلق ہو، تو اسے جنسی ہراسگی یعنی ’’سیکسوئیل ہراسمنٹ‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے جس پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں اگر میاں اپنی بیوی کی مرضی کے بغیر اور بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر اُسے مباشرت یا حقِ زوجیت ادا کرنے پر مجبور کرے، تو اسے جنسی حملے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
برطانیہ میں بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی یا کسی بالغ کی عصمت دری پر سنگین سزائیں متعین ہیں…… اور قانون میں ایسے مجرموں کو زندگی بھر کے لیے (Sex Offenders Register) میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے بعد انہیں کسی بھی ایسی جگہ کوئی کام یا ملازمت نہیں مل سکتی…… جہاں بچوں کی آمد و رفت ہو اور ایسے مجرموں کی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے۔ برطانیہ میں جنسی زیادتی کے پرانے واقعات پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان معاملات میں برطانوی عدالتیں اور قانون متاثرین کو فوری انصاف فراہم کرتے ہیں۔ عورت کے حقوق اور مرضی کو جو تحفظ اس غیرمسلم معاشرے میں حاصل ہے، مسلمان معاشروں میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں انصاف کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہے اور یہاں کی عدالتیں کسی گورے کالے، مرد عورت، امیر غریب، با اختیار یا بے اختیار کی تمیز کیے بغیر انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔