چھے اگست 1945ء اور نو اگست 1945ء وہ دو تاریخیں ہیں جو جوہری ہتھیاروں سے دنیا کے وجود کو لاحق خطرے کی طرف رہتی دنیا تک اشارہ کرتی رہیں گی۔
امریکہ نے 6 اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور 9 اگست کو جاپان ہی کے شہر ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے۔ ایٹم بم انسانیت کو کس طرح تباہ کرسکتا ہے؟ اس بات کے شواہد ہیروشیما اور ناگاساکی آج تک دے رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ 76 سال گزرنے کے بعد بھی جوہری حملے کے اثرات سے باہر نہیں آسکے۔ اس تباہی کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود، آج بھی دنیا کے 9 ممالک کے پاس 18 ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سے ہر ایک ہتھیار اس سے کہیں زیادہ تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں 76 برس قبل دیکھی تھی۔
دنیا بھر میں ایٹم بم اور ایٹمی تجربات کے خلاف عالمی دن ہرسال 29 اگست کے دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروانا ہے کہ کئی دہائیوں سے ہونے والے جوہری تجربات نے لوگوں اور ماحول کو کتنا نقصان پہنچایا۔ انسانی جانوں کے لیے دہشت کی علامت اور مہلک ترین ہونے کے باوجود، ایٹمی طاقتیں نہ صرف اپنے ان ہتھیاروں کو تلف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں بلکہ وہ اس کی شدت میں اضافہ کرکے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
دنیا کے 90 فیصد سے زائد نیوکلیئر ہتھیاروں کے مالک صرف دو بڑے ملک ہیں جن میں 7500 کے ساتھ روس اور 7200 کے ساتھ امریکہ شامل ہیں۔ اس وقت جوہری وار ہیڈز کی مجموعی تعداد تقریباً 2000 ہے جنہیں جوہری ٹیکنالوجی کے حامل ممالک نے کسی بھی وقت استعمال کے لیے مکمل تیاری کی حالت میں رکھا ہوا ہے۔ ان میں سے تقریباً 1800 ایسے ہیں جو کہ چند لمحوں کے نوٹس پر لانچ کیے جا سکتے ہیں، جن سے عالمی امن کو شدید خطرہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پہلے نمبر پر روس نے 7500 نیوکلیئر وارہیڈ اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نصب کر رکھے ہیں دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جس کے پاس 7200 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ تیسرے نمبر پر فرانس کے پاس 300، چین کے پاس 290، انگلینڈ کے جوہری بموں کی تعداد 200، پاکستان کے پاس 150 اور بھارت کے پاس 140 جوہری بم موجود ہیں۔ اسرائیل نے 80 سے 90 بم بنا رکھے ہیں جب کہ شمالی کوریا کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس نے بھی 20 سے 30 جوہری بم بنا لیے ہیں۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ دنیا میں 8 ایٹمی قوتیں ہیں، تاہم اسرائیل نے کوئی ایٹمی تجربہ نہیں کیا، لیکن وہ بھی بھرپور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعدادکو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کئی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کے لیے پاکستان نے مثبت و مثالی کردار ادا کرتے ہوئے کئی بار ہمسایہ ملک بھارت کو ایٹمی ہتھیاروں کے مزید تجربے نہ کرنے کے دو طرفہ انتظامی معاہدے کی پیشکش کی، جس کا مقصد خطے میں امن و استحکام کے اقدامات کو فروغ دیناتھا۔
ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں پاکستان کا یہ اٹل مؤقف ہے کہ وہ کم از کم ڈیٹرنس کا قائل ہے جو اس کے دفاع کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کی ترجیح ہے کہ ملک کی معاشی حالت کو بہتر اور مضبوط بنایا جائے اور پاکستان کے عوام کو غربت سے نجات دلائی جائے۔ ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے، تمام شہریوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کی جائیں اور انہیں پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
پاکستان روایتی یا ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ہے۔ اس کا شروع ہی سے مؤقف رہا ہے کہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ نہیں ہونی چاہیے اور تنازعات کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کے مؤقف کی صداقت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے میں پہل نہیں کی۔ یہ بھارت تھا جس نے بہت پہلے ایٹمی پروگرام شروع کیا، تاہم اس کی جارحیت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ پروگرام کی کامیابی کے باوجود اس نے ایٹمی دھماکے نہیں کیے، لیکن جب بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا، تو اس کے بعد پاکستان نے بھی کامیاب تجربات کیے، لیکن ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد بھارت کو پیشکش کی کہ دونوں ملک بیک وقت سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرتے ہیں اور یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ مزید ایٹمی تجربات نہیں کریں گے، لیکن بھارت نے پاکستان کی اس پیشکش پر مثبت ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
بلاشبہ پاکستان نے اس پیشکش کا اعادہ کرکے درست سمت میں فیصلہ کیا۔ کیوں کہ خطے کے امن و استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے پاک رکھا جائے اور متعلقہ ممالک اپنے زیادہ تر وسائل کو اپنے اپنے عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے پر صرف کریں، لیکن بدقسمتی سے بھارت پر علاقے کا تھانیدار بننے کا بھوت سوار ہے اور اسے اپنے عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ مسلسل ہتھیاروں کے ذخائر جمع کررہا ہے اور اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کررہاہے۔
بھارت کو خطے کے امن اور خوشحالی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر سوویت یونین کو معاشی استحکام نہ دے سکے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تمام ایٹمی ممالک اپنے ایٹمی اسلحہ میں تخفیف کریں اور اپنے وسائل اورصلاحیتوں کو سامان جنگ و جدل کی بجائے عالمی امن، صحتِ عامہ اور اقوامِ عالم سے غربت و مہنگائی کے خاتمے کے لیے بروئے کار لائیں، تاکہ یہ دنیا ہر ایک انسان کے لیے خوشیوں اور خوشحالی کا باعث بنے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔