1994ء میں مجھے پہلی بار ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے سکاٹ لینڈ جانے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر شفیع کوثر، احمد ریاض اور راحت زاہد اس وقت گلاسگو میں اُردو زبان و ادب کی بقا اور فروغ کے چراغ روشن کرنے میں سرگرم عمل تھے جب کہ طاہر انعام شیخ اُردو صحافت کے علمبردار بلکہ میرِ کارواں تھے۔
سکاٹ لینڈ کی خوبصورتی اور شادابی کا جو تصور لے کر میں گلاسگو گیا تھا، وہ یکسر بے زاری اور مایوسی میں تبدیل ہوگیا۔ لندن واپس آکر میں نے ٹیلی فون پر طاہر انعام شیخ سے سکاٹ لینڈ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا، تو انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ اگر اس خطے کی شادابی، رعنائی اور فطری حسن دیکھنا ہو، تو گلاسگو سے باہر نکلنا ضروری ہے۔ چناں چہ اگلی بار جب میں موسمِ گرما میں سکاٹ لینڈ گیا، تو سرسبز و شاداب پہاڑوں (ہائی لینڈز) کے درمیان ایک آرام دہ گیسٹ ہاؤس میرا مسکن تھا۔ شفاف جھیلوں، تاحدِ نظر پھیلی چراگاہوں، آبشاروں، خوشنمائی کی شاہکار وادیوں اور سبزے کی چادر اوڑھے بلند و بالا پربتوں کو دیکھنے کی حسرت اس شان دار طریقے سے پوری ہوئی کہ مَیں ابھی تک اس کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ پُرسکون لوخ لومنڈ (جھیل) کے کنارے بیٹھ کر کافی پینے اور کیک کھانے کا لطف ابھی تک میرے حافظے میں ہے۔ اسی طرح اس سرسبز وادی کی سیر بھی میں ابھی تک فراموش نہیں کرسکا جہاں سکاچ وہسکی کشید کی جاتی ہے اور جس کی فضا میں شراب کی تاثیر ایسے رچی ہوئی ہوتی ہے کہ بغیر پیے بھی قدم ڈگمگاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
مَیں جب بھی سکاٹ لینڈجاتا ہوں، تو میری کوشش ہوتی ہے کہ شہر کی بجائے کسی مضافاتی علاقے یا کسی وادی کے ہوٹل میں قیام کروں۔ جہاں سے طاہر انعام شیخ مجھے لے کر سکاٹ لینڈ کے ان خوبصورت اور تاریخی حصوں کی سیر کرانے کے لیے نکل پڑتے ہیں جو مَیں ابھی تک نہیں دیکھ پایا۔
طاہر انعام شیخ ادیب اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ مَیں تو انہیں سکاٹ لینڈ کا انسائیکلوپیڈیا کہتا ہوں۔ سکاٹ لینڈ واقعی یونائیٹڈ کنگڈم کا حسن ہے جو 30 ہزار مربع میل سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے اور جس کی آبادی تقریباً 35 لاکھ ہے۔ یہاں کے 54 فیصد لوگ عیسائی اور 37 فیصد کسی بھی مذہب کے نہ ماننے والے یعنی دہریے ہیں۔ مئی 1707ء سے پہلے تک سکاٹ لینڈ ایک آزاد ملک تھا جو مذکورہ تاریخ کے بعد ’’گریٹ برٹین‘‘ کا حصہ بنا۔ 1999ء میں سکاٹش پارلیمنٹ تشکیل دی گئی جس کے 129 اراکین کو عام انتخابات یعنی ووٹروں کے ذریعے چنا جاتا ہے جب کہ برطانوی پارلیمنٹ کے لیے سکاٹ لینڈ سے 59 امیدواروں کو بھی منتخب کیا جاتا ہے۔ سکاٹش پارلیمنٹ کے سربراہ کو فرسٹ منسٹر آف سکاٹ لینڈ کا منصب تفویض ہوتا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں 32 ایڈمنسٹریٹو سب ڈویژن یعنی کونسل ہیں جو مقامی حکومتوں کی طرز پر کام کرتی ہیں۔
سکاٹ لینڈ دنیا کے خوبصورت خطوں میں سے ایک ہے جہاں چھے سو سے زیادہ تازہ پانی کی جھیلیں اور تقریباً 798 چھوٹے بڑے جزیرے ہیں۔ برطانیہ کی سب سے بلند آبشار بھی سکاٹ لینڈ میں ہے جس کی بلندی 658 فٹ ہے۔ اسی طرح یورپ کا قدیم ترین درخت بھی سکاٹ لینڈ میں ہے جس کی عمر تین ہزار سال سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
سکاٹ لینڈ میں جنگلی حیات کی کثرت اور فطری نظاروں کی خوبصورتی سیاحوں کے لیے خاص کشش کا باعث ہے ۔ اس کی یونائیٹڈ کنگڈم سے علاحدگی اور خودمختاری کی تحریک اور مطالبہ اب اپنے منطقی انجام کا منتظر ہے۔ 1979ء اور 1997ء میں سکاٹش حکومت کے قیام اور سکاٹ لینڈ کو بااختیار بنانے کے لیے دو ریفرنڈم ہوئے جس کے نتیجے میں سکاٹش پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے باوجود سکاٹش لوگوں کی ایک بڑی تعداد گریٹ برٹین سے آزادی کی خواہاں ہے۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کی سکاٹش پارلیمنٹ میں اکثریت کی وجہ سے 2014ء میں سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے ایک عوامی ریفرنڈم کروایا گیا، جس میں 55.3 فیصد لوگوں نے یونائیٹڈ کنگڈم کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیے اور سکاٹ لینڈ کی آزادی کا مطالبہ اور نعرہ ٹھنڈا پڑگیا۔ مگر جب 23 جون 2016ء میں یورپی یونین سے نکلنے کے لیے برطانیہ بھر میں ریفرنڈم ہوا، تو اس موقع پر 62 فیصد سکاٹش لوگوں نے یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیا مگر مجموعی طور پر یونائیٹڈ کنگڈم کے لوگوں کی اکثریت نے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اس لیے برطانیہ اور یورپی یونین کے راستے الگ ہوگئے جس کے نتیجے میں سکاٹ لینڈ میں ایک بار پھر سے آزادی اور خودمختاری اور یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں مطالبات نے زور پکڑلیا ہے۔
6مئی 2021ء کو ہونے والے سکاٹش پارلیمنٹ کے انتخابات میں ’’سکاٹش نیشنل پارٹی‘‘ (ایس این پی) کی ایک بار پھر واضح برتری کے بعد سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے ایک اور ریفرنڈم کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔ انتخابات میں سکاٹش نیشنل پارٹی کی حمایت کے اعداد و شمار کو سکاٹ لینڈ کی آزادی کے ریفرنڈم کی حمایت کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا قیاس یہی ہے کہ ان حالات میں اگر ایک اور ریفرنڈم کا اہتمام کیا جائے، تو 60 فیصد کے قریب سکاٹش باشندے برطانیہ سے آزادی کے حق میں ووٹ دیں گے۔
آزادی اور علاحدگی کے مطالبات اور تحریکوں کے سلسلے میں ملکوں اور قوموں کی تاریخ بہت دلچسپ اور حیران کن ہے۔ 1939ء تک اس دنیا کے نقشے پر صرف 63 ملک تھے جو ’’لیگ آف نیشن‘‘ کے رکن تھے جب کہ ہماری آج کی دنیا میں 193 ممالک ہیں جو اقوامِ متحدہ کی طرف سے علاحدہ خودمختار ملک تصور کیے جاتے ہیں۔ ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں ہماری یہ دنیا 63 سے 193 ممالک میں بٹ گئی اور آنے والے دنوں میں اس دنیا کے نقشے پر کتنے ممالک ہوں گے؟ اس بارے میں کوئی پیش گوئی یا قیاس آرائی کرنا ممکن نہیں۔
پچھلی صدی کے آغاز میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ سوویت یونین جیسی سپر پاور کا شیرازہ بکھر جائے گا اور کئی نئے ممالک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوں گے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جو کسی فیڈریشن یا ریاستی اتحاد سے الگ ہو کر یا آزادی حاصل کر کے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہوگئے جب کہ کئی ممالک آزادی کے حصول کے بعد پسماندگی اورکرپشن کی دلدل میں دھنس گئے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے سے برصغیر کی تقسیم تک اور سیکنڈے نیویا کے ممالک کی علاحدگی سے لے کر دیوارِ برلن کے منہدم ہونے تک انسانی تاریخ ہمیں ان حقائق سے آگاہ کرتی ہے جس کی روشنی میں ہم مستقبل کے امکانات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
گریٹ برٹین سے الگ ہو کر سکاٹ لینڈ اور زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہو جائے گا یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا دلچسپ سیاسی قیاس آرائی ہوگی۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کی قیادت کا خیال ہے کہ سکاٹ لینڈ کے وسائل پر برطانوی دارلحکومت لندن کا کنٹرول ہے جس میں نارتھ سی آئل کا معاملہ سرِفہرست ہے۔ اسی طرح ایس این پی کے سیاست دان سکاٹ لینڈ میں جوہری ہتھیاروں اور نیوکلیئر سنٹر کی موجودگی کے بھی خلاف ہیں اور عوام کی اکثریت یورپی یونین سے علاحدگی پر انگلینڈ سے نالاں ہے۔ جہاں تک سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے آئندہ ریفرنڈم کے انعقاد کا تعلق ہے، تو یہ ایک آسان آپشن نہیں۔ اس کے لیے سکاٹ لینڈ ایکٹ 1998ء کے سیکشن 30 کے تحت برطانوی وزیر اعظم کی اجازت اور رضامندی لازمی ہے۔ 2014ء میں اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایس این پی کے لیڈر ایلیکس (Alex) سالمنڈ کے ساتھ باہمی رضا مندی سے سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کی حامی بھری تھی۔ موجودہ حالات میں اگر برطانوی وزیر اعظم نے سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کی اجازت دی اور سکاٹش لوگوں کی اکثریت نے اپنے حقِ خود ارادیت اور آزادی کے حصول کے حق میں ووٹ دیے، تو پھر نادرن آئرلینڈ اور ویلز میں بھی برطانیہ سے علیحدگی کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی۔ سکاٹ لینڈ اپنے رقبے، قدرتی وسائل اور آف شور اقتصادیات کے علاوہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کے حصول کے بعد ترقی اور خوشحالی کی نئی منزل کی طرف گامزن ہوگا لیکن یونائیٹڈکنگڈم سے علاحدہ ہو کر نہ صرف اُسے برطانیہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی اقتصادی معاونت سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ یورپی یونین میں شمولیت کے لیے بھی سکاٹ لینڈ کو ایک لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔
بعض اوقات آزادی کا حصول آسان ہوتا ہے لیکن آزاد ہونے کے بعد اپنی خود مختاری کو قائم رکھنا اقتصادی استحکام سے مشروط ہو جاتا ہے۔ گذشتہ صدی میں آزاد اور خود مختار ہونے والے کئی ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کے سروں پر آزادی کا تاج تو رکھا ہوا ہے لیکن اُن کے پاؤں میں اقتصادی مجبوریوں کی زنجیریں پڑی ہوئی ہیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔