چوالیس سالہ نازشاہ برطانوی پارلیمنٹ کی سرگرم رکن ہیں۔ وہ بریڈفورڈ سے لیبر پارٹی کی ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے چند سال قبل سیاست میں قدم رکھا۔ لیبر پارٹی نے انہیں پلیٹ فارم فراہم کیا۔ کامیابی کے زینے تیزی سے طے کیے۔ دو بار الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور یوں برطانوی پارلیمنٹ میں براجمان ہوگئیں۔ ناز شاہ قومی اور بین الاقوامی مباحث میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ گذشتہ ہفتے اسلام آباد تشریف لائیں، تو صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جہاں انہوں نے اظہارِ خیال کیا اور شرکائے مجلس سے استفسار کیا کہ وہ کیسے برطانیہ اور یورپ میں مقدمہ کشمیر بہتر طور پر پیش کرسکتی ہیں۔ صدر مسعود خان نے انہیں ’’دخترِ کشمیر‘‘ کا خطاب دیا اور یاد دلایا کہ دھرتی ماں کا قرض چکانے کی خاطر انہیں تنازعۂ کشمیر کے حل کے لیے متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔

"دخترِ کشمیر” ناز شاہ

اگلے دن وہ میرپور کے نواح میں اپنے آبائی قصبے چک سواری تشریف لے گئیں۔ مقامی خواتین و حضرات نے ان کے اعزار میں ایک پروقار تقریب منعقد کی۔ سر پر دوپٹہ لیے مقامی لباس میں ملبوس شستہ میرپوری لب و لہجے میں گفتگو کی، تو حاضرین خوشی سے جھوم اٹھے۔

ناز شاہ کی نجی زندگی حادثات اور دکھوں سے عبارت ہے۔ والد نو عمری میں ساتھ چھوڑ گئے۔ والدہ کی زندگی بھی کافی ناہموار رہی۔ انہیں جیل جانا پڑا اور عمر بھر مقدمات کا سامنا رہا۔ اس کے باوجود ناز شاہ نے ہمت نہ ہاری اور بھرپور سیاسی اور سماجی زندگی گزارنے کی ٹھانی۔ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر جارج گلیلوے کو شکست سے دوچار کیا جو برطانیہ کے ایک مقبول لیڈر تھے۔ مسلمانوں میں ان کا ایک مؤثر حلقۂ اثر تھا۔ ایک کمزور اور اجڑی ہوئی عورت کے لیے مشکل حالات کے باوجود برطانوی پارلیمنٹ کے دوبار الیکشن جیتنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔
یہ کہانی محض ایک نازشاہ ہی کی نہیں۔ لندن کے میئر کے پس منظر سے ہم سب آگاہ ہیں۔ وہ ایک بس ڈرائیور اور خاتون درزی کے فرزند ہیں لیکن اپنی محنت اور ریاضت سے لندن جیسے بڑے شہرکے میئر بن گئے۔ انہوں نے گولڈ اسمتھ جسے کھرب پتی کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔

مجھے بتایا گیا کہ برطانوی پارلیمنٹ میں لگ بھگ بارہ کشمیری اور پاکستانی النسل ارکان پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی جاگیردارنہ یا سرمایادارانہ پس منظر کا حامل نہیں۔ عام سے گھرانوں سے اٹھنے والے یہ لوگ برطانوی پارلیمنٹ تک جا پہنچے۔ کیونکہ اس معاشرے میں قابل اور باصلاحیت لوگوں کے راستے میں روڑے اٹکانے والے اور ان کا شجرۂ نسب پوچھ کر ووٹ دینے والے نہیں پائے جاتے۔

راولاکوٹ کے عرفان صابر 2004ء میں کسی طرح کینیڈ ا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ انہیں نہ صرف شہریت دی گئی بلکہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ سیاست سے گہری لچسپی کا نتیجہ تھا کہ جلد ہی نہ صرف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے بلکہ کالگری سے الیکشن میں حصہ لیااور فتح نصیب ہوئی۔ صوبائی حکومت میں انسانی خدمات کی وزارت ملی۔ گذشتہ الیکشن میں کینیڈا کی پارلیمنٹ میں دس کے لگ بھگ مسلمان منتخب ہوکر آئے۔ حالاں کہ مسلمانوں کی اس ملک میں آباد ی محض دس لاکھ ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ میں لگ بھگ بارہ کشمیری اور پاکستانی النسل ارکان پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی جاگیردارنہ یا سرمایادارانہ پس منظر کا حامل نہیں۔ عام سے گھرانوں سے اٹھنے والے یہ لوگ برطانوی پارلیمنٹ تک جا پہنچے۔ کیونکہ اس معاشرے میں قابل اور باصلاحیت لوگوں کے راستے میں روڑے اٹکانے والے اور ان کا شجرۂ نسب پوچھ کر ووٹ دینے والے نہیں پائے جاتے۔

چند ہفتے قبل راقم الحروف کی نیویارک میں کاروباری شخصیت افضل بیگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ یہاں ٹیکسی کا بہت بڑا بزنس کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیس برس قبل کئی ماہ تک مختلف ممالک سے گزرتے ہوئے وہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے۔ ٹیکسی چلائی۔ چھوٹے موٹے کاروبار کیے۔ رفتہ رفتہ جس ٹیکسی کمپنی میں کام کرتے تھے، اسے خرید لیا۔ آج سیکڑوں لوگ ان کی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ وہ کامیابی اور محنت کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ یورپ اور امریکہ جاکر احساس ہوتا ہے کہ ان معاشروں نے نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ تارکین وطن کو بھی اپنے سماجی، معاشی اور سیاسی نظام ڈھانچوں میں پوری طرح سمو د یا ہے۔

اس کے برعکس ہم نے سماجی اور معاشی ناہمواریوں پر مشتمل ایک ایسا نظام تشکیل دیا جس سے عام شہری کا کوئی لینادینا ہی نہیں۔کل تک اس خطے پرانگریز حکومت کرتے تھے، آج بھٹو یا شریف خاندان حکمران ہے۔ حکمرانوں کے بدلنے سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ شہری موجودہ نظام حکومت میں اپنے آپ کو شراکت دار محسوس نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ کوئی ذمہ داری( اونرشپ) قبول ہی نہیں کرتے۔ ہر مسئلہ سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔

سیاسی پارٹیوں میں عام لوگوں کے لیے اگلی صف میں جگہ پانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ لوگ رضا ربانی، اعتراز احسن اور قمرالزمان کائرہ کو فریال تالپور اور بلال بھٹو زرداری کے دربار میں صف بستہ دیکھتے ہیں، توا نہیں سیاست سے کراہت ہوتی ہے۔ نون لیگ کا بھی یہی حال ہے۔ شریفوں کے برے وقتوں کے ساتھی قطار اندر قطار کھڑے محترمہ مریم نوازکا استقبال کرتے ہیں۔ ان کی ہدایات پر چوکڑی بھرتے ہیں۔

نوجوان سکالر ڈاکٹر وقاص علی نے ایک سرورے میں لگ بھگ آٹھ سو طالب علموں سے پوچھا کہ وہ سیاست میں کوئی کردار ادا کرناچاہتے ہیں؟ نوے فیصد نے کہا کہ ان کے پاس مالی وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی بڑاخاندان ان کی پشت پناہی کرنے والا ہے، لہٰذا و ہ سیاست میں حصہ لینے کاتصور بھی نہیں کر سکتے۔

اکثرقابل اور ذہین لوگ بیرون ملک سدھار جاتے ہیں یا پھر سرکاری نوکریوں میں کھپ جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو معاشرے کے ٹکرائے ہوئے کارکن ملتے ہیں یا پھر سرمایہ کار۔ گھسے پٹے لوگ پارٹیوں کی اگلی صفوں میں براجمان ہوجاتے ہیں۔ ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کے پاس بلدیاتی اداروں کے ذریعے قومی سیاست میں داخلے کا ایک راستہ تھا جس کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر لولے لنگڑے بلدیاتی ادارے قائم تو ہوگئے لیکن اختیارات ہیں اور نہ مالی وسائل کہ عوام کی خدمت کرسکیں۔

اسّی کی دہائی میں اس ملک میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیڈر بار بار کہا کرتے تھے کہ چہرے نہیں نظام بدلو۔ اس وقت یہ نکتہ پلے نہیں پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی مداخلت سے پاک مضبوط ریاستی ادارے اور جمہوری نظام ہی شہریوں کو بااختیاربنانے کا واحد راستہ ہیں۔

مغرب یا امریکہ کے عروج کا راز یہ ہے کہ وہاں شہریوں کو ترقی کے یکساں اور مساوی مواقع دستیاب ہیں۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں تمام شہریوں کو دستیاب ہیں۔کاروبار میں ریاستی ادارے آپ کی سہولت کار بن جاتے ہیں۔ راستہ روکا جاتا ہے اور نہ کسی کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کیا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو شخص ناکام تصور کیاجاتاہے وہ بھی مغربی ممالک میں جاکر کامیاب انسان بن جاتاہے۔ کیوں کہ ریاستی ادارے اس کی پشت پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ مشکلات کا تنہا نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے اشتراک سے مقابلہ کرتا ہے۔

مغرب یا امریکہ کے عروج کا راز یہ ہے کہ وہاں شہریوں کو ترقی کے یکساں اور مساوی مواقع دستیاب ہیں۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں تمام شہریوں کو دستیاب ہیں۔کاروبار میں ریاستی ادارے آپ کی سہولت کار بن جاتے ہیں۔

پاکستان میں قدرتی وسائل اور ذہانت کی کمیابی نہیں۔ ضرورت صرف منصوبہ بندی اور مضبوط ادارے قائم کرنے کی ہے۔ ایسے ادارے جن پر سیاستدانوں کا کوئی کنٹرول نہ ہو۔ وہ آزادی کے ساتھ اپنی حدود میں رہ کرکام کرتے ہوں اور کوئی ان کے راستے میں رکاوٹ نہ کھڑی کرسکتاہو۔ اگر ایک بار ایسا ممکن ہوگیا، تو پھر کل میانمار کا کوئی مہاجر محض اپنی صلاحیتوں کی بنا پر کراچی کا میئر بن سکے گا۔ کوئی افغان نژاد پاکستانی خیبر پختون خوا کا وزیراعلیٰ بن سکتاہے اور کوئی بھی نازشاہ اس ملک کی چیف جسٹس یا وزیراعظم کے مرتبہ پر فائز ہوسکتی ہے۔
شہریوں کو ایک بار اعتماد ہوگیا کہ ریاست ان کے ساتھ ماں جیسا سلوک کرتی ہے، تو پھر اکیس کروڑ لوگ اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنا تن من دھن لگانے سے دریغ نہیں کریں گے۔