سات لاکھ ستاون ہزار نفوس، پندرہ سو چھیاسی مربع کلو میٹر رقبے اور دو تحصیلوں الپورئی اور پورن کی مالک وادیِ شانگلہ، جو کبھی سابقہ ریاست سوات کا حصہ تھی، جولائی اُنیس سو پچانوے میں ریاستِ پاکستان کے نقشے پر پسماندہ ترین ضلعوں کی فہرست میں اُبھری۔ ضلع بننے سے پہلے یہاں ٹیلی فون، سکولز اور ڈسپنسری کی سہولیات جگہ جگہ موجود تھیں، جو بعد میں ناپید ہونا شروع ہوئیں۔ تاہم ترقی اتنی ہوئی کہ یہاں پر مع باڈی گارڈز، ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نامی عہدیدار آ دھمکے۔ خوشخبری یہ ہے کہ بیس بائیس سال کے مختصر عرصے میں الپورئی سے بشام تک بیس بائیس کلومیٹر پکی سڑک سج گئی ہے، یعنی ایک کلومیٹر فی سال۔ واقعی یہ ایک معجزہ سے کم بات نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وطن عزیز کے دارالخلافہ اسلام آباد کو ’’چشمِ ما روشن، دلِ ما شاد‘‘ رکھنے کے لئے یہاں انڈس ریور کے ٹرائبیوٹری خان خوڑ پر ہائیڈرو پاور پلانٹ بھی بنا۔ افضل شاہ باچہ ، جو اس موقع پر ہمارے رفیقِ سفر ہیں، لیلونئی کے میاگان صاحبان کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑتے ہیں۔ اُن کے ساتھ نوک جھونک اور زبان درازی کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ فروٹ میں وادئی شانگلہ کی اگر کوئی چیز مشہور ہے، تو وہ ہے کالا املوک، جو گرمیوں میں پکتا ہے۔ لوگ یہ املوک کراچی کی منڈیوں میں فروخت کرتے ہیں۔ سردیوں میں یہاں کے لوگ کراچی جاتے ہیں، تو وہی املوک مہنگے داموں خرید کر خود بھی کھاتے ہیں اور مہمانوں کو بھی یہ کہتے ہوئے زبردستی کھلاتے ہیں کہ اپنے شانگلے کا پھل ہے، رَج کے کھا۔

سات لاکھ ستاون ہزار نفوس، پندرہ سو چھیاسی مربع کلو میٹر رقبے اور دو تحصیلوں الپورئی اور پورن کی مالک وادیِ شانگلہ، جو کبھی سابقہ ریاست سوات کا حصہ تھی، جولائی اُنیس سو پچانوے میں ریاستِ پاکستان کے نقشے پر پسماندہ ترین ضلعوں کی فہرست میں اُبھری۔

شانگلہ کے پیر مشہور ہیں یا فقیر یا پاپین خیل میاگان۔ پوری وادی میں کسی پیر کے متعلق پوچھیں، تو وہ اُلٹا سوال پوچھیں گے: ’’کون سا پیر؟ یہاں تو دو پیر ہیں، ایک کا گھر اوپر والے گاؤں میں ہے اور دوسرا آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ آپ بیماری بتائیں۔‘‘ صوبے کے مختلف علاقوں سے پیچیدہ بیماریوں بشمول کینسر میں مبتلا مریض تعویذ، دم درود یا حکیمی نسخوں کے حصول کے لئے یہاں آتے ہیں اور اپنی مرادیں پاتے ہیں یا نہیں، خدا ہی بہتر جانے۔ البتہ اُن کی آمد ورفت سے یہاں پر ’’میڈیکو ٹورازم‘‘ کے ’’اَن لمیٹڈ‘‘ مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ اپنا بھی دل کرتا ہے کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بال شال اور ’’رموزِ اوقاف‘‘ کے سانچے (پیٹرنز) کو یہاں کی آب و ہو اور ضابطۂ اخلاق سے منطبق کرکے یہ پیشہ اپناؤں اور خدمت خلق میں جت جاؤں۔ بس ایک لاؤڈ سپیکر چاہئے، ایک اپنا بزرگ وار بھائی ’’پیرِِِ الپوری‘‘ جناب ایڈووکیٹ سردار زیب خان پاپین خیل عرفِ کالج دا۔ باقی کام سے ہم خود نمٹ لیں گے۔ کہتے ہیں کہ شانگلہ کے لوگ بغیر ڈگری کے وکیل ہیں اور جنہوں نے ’’کالج دا‘‘ کی طرح وکالت کی اعلیٰ ڈگری کسی بڑے شہر کے’ ’گودے‘‘ میں رہ کر پاس کی ہو، تو اس سے ’’غور بند چل‘‘ کے چکرباز بھی پناہ مانگیں۔ شانگلہ کی بات ہو اور غوربند چل کی بات نہ ہو، تو بات کاکیا مزہ؟ لیکن ابھی نہیں۔ یہ اُدھار ہی رہے، تو اچھا ہے۔ ویسے کالج دا سمجھدار آدمی ہیں، اُن کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔
عام لوگوں کی نظر میں تو یہاں کافی نامی گرامی شخصیات ہوں گی، لیکن اپنی محدود سی نظر میں یہاں کی نامور شخصیات صرف تین ہی ہیں۔ نمبر ایک، گاؤں لیلونئی کے سرن زیب خان مرحوم، جن کی پوری زندگی مہمانوں کے جمگھٹے اور آؤ بھگت میں گزری۔ پختون خوا کے چیدہ چیدہ سیاسی لیڈر اور اکابرین جب سوات آتے، تو اُن سے ملنے یہاں ضرور آتے اور فراغت کے لمحات گزارتے۔ اب اُن کے خاندان کے چشم وچراغ فدا محمدخان، افتخار خان، سردار زیب خان، ڈاکٹر آفتاب اور غالب جو پشاور یونیورسٹی میں میرے کلاس فیلو رہے ہیں، کسی حد تک ہی سہی،وہی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
نمبر دو،
باز پہ جالہ کے چا نہ دے پیژندلے
قدر نشتہ د حافظ پہ الپورئی کے
حافظِ الپورئی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، الپوری گاؤں کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے پشتو زبان میں مٹھاس سے بھرپور شاعری کی ہے۔ احمد شاہ بابا اور تیمور شاہ کے ہمعصر تھے۔ نوجوان اور زیرک ایم این اے ڈاکٹر عباد اللہ نے حافظ کے مزار کی تجدید ومرمت بھی کی ہے اور ہر سال اُن کے مزار پر مشاعروں اوردیگر سرگرمیوں کا اہتمام بھی کراتے ہیں اور ان کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔
تیسرا، انجینئرامیر مقام، لوگ سیاسی اسیر بنتے ہیں، آپ سیاسی امیر بنے ہیں۔ خدا کی شان ہے نرالی۔
مکئی کی فصل اس وقت جوبن پر ہے۔ یہ یہاں کی واحد فصل ہے، جو کاشتکار مجبوراً کاشت کرتے ہیں۔ آلو اور دیگر سبزیاں بھی کاشت ہوتی ہیں ۔ اکثر علاقوں میں سال بھر میں صرف ایک ہی فصل کاشت ہوتی ہے۔ کوئی ایک لاکھ ایکڑ قابلِ کاشت زمین ہے یہاں۔ زیادہ تر بارانی ہے، جس پر ساڑھے سات لاکھ نفوس کی گزر بسر کا دار و مدار ہے۔ تقریباً ایک کنال فی نفر۔ پورے ملک میں سب سے کم لینڈ ہولڈنگ۔ عام لوگوں کا ذریعۂ معاش اسی محدود کھیتی باڑی کے علاوہ جنگلات ہے، بیرونِ ملک ’’ہارڈ جابز‘‘ ہے یا بلوچستان کے کوئلے کی کانیں۔ کوئی کارخانے ہیں نہ کاروبار یا تجارت کے ذرائع، جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے۔ نوجوان طبقہ اور مزدور دوسرے اضلاع میں جاکر مزدوری کرتے ہیں، پڑھتے یا ملازمت کرتے ہیں۔ شانگلہ کے برف سے ڈھکے اونچے اونچے پہاڑ، خاموش و بابرکت فضائیں، قدرتی سبزے کے کارپٹ بچھے ڈھلوان، با عزت و باادب کھڑے دیودار اور چِڑ وغیرہ کے گھنے جنگلات، ذائقہ دار جنگلی سبزیاں و مشرومز، ادویائی جڑی بوٹیاں اور پھر سیدھے سادے پُرامن، مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ لوگ۔ سیاحت کے لئے اس سے زیادہ بہتر ماحول اور کیا اور کہاں ہو سکتا ہے، جس کے ذریعے روزگار اور معاشی سرگرمیوں کے لامحدود امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑوں میں بے تحاشا معدنیات ہیں، جن میں کرومائٹ، سوپ سٹون، ماربل اور دیگر قیمتی پتھر جن میں زمرد شامل ہے، موجود ہیں۔ ان معدنیات پرحکومت کام کرتی ہے لیکن نیم دِلانہ،جس سے مقامی لوگوں کی زندگی میں کسی بہتری کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ ریاست اور برائے نام میڈیا تو ایک ناختم ہونے والی دہشت گردی کی جنگ اور امریکہ کے ’’ڈو مور‘‘ میں، عدلیہ ’’پانامہ پانامہ‘‘ میں اور حکمران ’’سی پیک سی پیک‘‘ کے چکر میں نتھنوں نتھنوں تک دھنس چکے ہیں۔ اس کے ناخداؤں کو کیا پتا کہ آخر یہ شانگلہ کے درجنوں مزدورہر سال کوئٹہ کی کانوں میں کام کے دوران میں ’’اجل کا لقمہ‘‘ کیوں اور کیسے بنتے ہیں؟ یہاں کا تعلیم یافتہ اور ہُنر مند طبقہ ملک سے کیوں بھاگ رہا ہے؟ شانگلہ کے لوگوں کو ’’ملال‘‘ ہے کہ وہ ترقی کی دوڑمیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے، لیکن اس دوڑ میں آگے نکلنے کے لئے اور کوئی راستہ نہیں ، خود ہی تگ و دو کرنے کے سوا۔

مکئی شانگلہ کی واحد فصل ہے، جو کاشتکار مجبوراً کاشت کرتے ہیں۔ آلو اور دیگر سبزیاں بھی کاشت ہوتی ہیں ۔ اکثر علاقوں میں سال بھر میں صرف ایک ہی فصل کاشت ہوتی ہے۔ کوئی ایک لاکھ ایکڑ قابلِ کاشت زمین ہے یہاں۔ زیادہ تر بارانی ہے، جس پر ساڑھے سات لاکھ نفوس کی گزر بسر کا دار و مدار ہے۔ تقریباً ایک کنال فی نفر۔

ہم الپوری کی باتوں میں لگے رہے اور کاروان بشام ٹاؤن بھی پہنچ گیا۔ سڑک اچھی اور پکی ہو، تو تیس پینتیس کلو میٹر کا فاصلہ چشمِ زدن میں طے ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے گئے وقتوں میں صورتحال یہ تھی کہ الپوری سے یہاں تک کا سفر آدھا دن ہڑپ کر جاتا۔ ریاستِ سوات کے دور میں مینگورہ سے بشام تک کا سفر صرف تین گھنٹوں میں طے ہوتا تھا۔ شاید خلیل خان کے فاختہ اُڑانے کے دن پھر آگئے ہیں۔ دوست بشام میں رُک کر سودا سلف کی خریداری میں مصروف ہوئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم بھی وقفہ کریں اور آپ کو انتظار کی تکلیف سے گزاریں یا اشتہاری لت میں ڈال کر پریشان کریں۔ بہتر ہے کہ ان لمحات کا فائدہ اُٹھا کر قافلے کے بعض اکابر، جن میں افتخار خان، افضل شاہ، سلطان حسین، طالعمند خان، سردار زیب، ڈاکٹر نعیم، حاضر گل، عمران عُرف ساز خان اور بعض اساغر جن میں سردار جونیئر، نواز خان ڈرائیور اورہم جیسے’’ نابغہ روزگار‘‘ شامل ہیں، میں بعض کا ذکر کیوں نہ کریں تاکہ کچھ نہ کچھ تعارف تو ہو۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والے تبصروں سے متفق ہونا لازمی نہیں۔