وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا
یہ مصرعہ آج اس وقت میرے دماغ میں گونجا، جب کل دن بھر کی مصروفیت کے بعد میں نے غیر ارادی طور ٹیلی وِژن آن کیا، تو وہاں پر ایک عجیب و غریب سین دکھایا جا رہا تھا۔ آپ یقین کریں، پہلے مَیں یہ سمجھا کہ یہ کوئی ٹی وی والوں کا طنز و مِزاح پر مبنی پروگرام ہے کہ جس میں ہمارے پارلیمنٹیرین کے عمومی رویوں کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، لیکن کچھ دیر بعد یہ محسوس ہوا کہ ٹی وی حقیقت کی آنکھ سے ننگی سچائی بتا رہا ہے۔ جب مَیں نے اس موضوع پر ایک دوست سے بات کی، تو تین منٹ میں میرے واٹس اَپ میں گذشتہ چند دن کی تمام جھلکیاں موجود تھیں۔
چند دن قبل بلاول بھٹو پر جملے کسے گئے ۔ جن میں پیش پیش ایک لیہ کے منتخب ایم این اے تھے۔ اس کے بعد بجٹ تقریر کے دوران میں جب اپوزیشن کی چند خواتین کچھ احتجاجی بینر لیکر کھڑی ہوئیں، تو حکومتی خواتین ارکان نے ان سے باقاعدہ ہاتھا پائی کی۔ اس کے بعد جب قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف تقریر کرنے آئے، تو حکومتی ارکان نے ان کی تقریر کے دوران میں گویا طوفانِ بدتمیزی برپا کردیا۔ آخرِکار اسمبلی کا ہال باقاعدہ پانی پت کا میدان بنا دیا گیا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دی گئیں۔ ایک دوسرے کو بجٹ کی دستاویز ماری گئی۔ باقاعدہ مکوں اور تھپڑوں کا تبادلہ ہوا۔ ایک وفاقی وزیر باقاعدہ میز کے اوپر کھڑے ہوگئے اور نشانہ بنا بنا کر اپوزیشن کی طرف بجٹ کی کتب پھینکتے رہے۔ حتی کے سارجنٹ آف ہاؤس طلب کیے گئے، لیکن وہ بچارے اس طوفانِ بدتمیزی میں بالکل بے بس رہے۔ ان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس کو سمجھائیں اور کس کو منع کریں؟ کس کو باہر نکالیں اور کس کو اندر رہنے دیں؟ مزید جو ارکان اس دھکم پیل میں شریک نہ تھے، وہاں بجائے ان کو چھڑانے یا سمجھانے کے کچھ ایک طرف خاموش بیٹھے ہوئے تھے، اور کچھ باقاعدہ سیٹیاں بجا کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ تو باقاعدہ قہقہے لگا کر ماحول کا مزہ لے رہے تھے۔ سپیکر جو کہ ’’کسٹوڈیم آف ہاؤس‘‘ ہوتا ہے اور آئینی طور پر ہاؤس کے اندر سب سے طاقت ور انسان ہوتا ہے، وہ بالکل بے بس اور لا چار بنا دیاگیا۔ یعنی ایسے لگتا تھا کہ فسٹ ائیر کے بچے کسی کرکٹ بلکہ کبڈی میچ کے دوران میں جھگڑ پڑے ہیں۔
قارئین، ویسے تو ہر جمہوری معاشرے میں اختلافِ رائے ایک حسن کی حیثیت رکھتا ہے، اور بغیر حزبِ اختلاف کے جمہوریت ہونا ممکن ہی نہیں، اور ہر جمہوری معاشرے میں حزبِ اختلاف ہوتی ہے اور وہ حکومت پر تنقید کرتی ہے، بلکہ بعض اوقات یہ تنقید برائے تنقید ہوتی ہے۔ حزبِ اختلاف والے جان بوجھ کر شرارت بھی کرتے ہیں، لیکن حکومت کا رویہ بہت صبر آزما اور مہذب ہوتا ہے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ معاملات ایک حد سے زیادہ بگڑنے نہ پائیں، خاص کر اسمبلی یا سینٹ کے سیشن کے دوران میں۔ بجٹ جیسے اہم موقعہ پر تو حکومت ہر صورت ماحول کو معتدل رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن معلوم سیاسی تاریخ میں شاید یہ پہلی حکومت ہے جو خود بجائے مسائل کو حل کرنے کے، وجۂ تنازعہ بن جاتی ہے۔ اب یہی واقعہ دیکھ لیں!
چلو مان لیا شرارت ہی تھی کہ نون لیگ کی چند خواتین اگر کچھ احتجاجی بینر لے کر کھڑی ہوگئی تھیں، تو کیا فرق پڑتا تھا؟ آپ ان کو اگنور کر دیتے۔ وہ خود ہی تھک کر بیٹھ جاتیں۔ لیکن آپ نے اس معاملے کو اس غلط طریقہ سے ہینڈل کیا کہ معاملہ مکمل بگڑ گیا۔ آپ کم از کم سندھ اسمبلی میں پی پی کی حکومت سے سیکھ لیتے کہ وزیر اعلا سندھ کی تقریر کے دوران میں باقاعدہ باجے لے کر پہنچ گئے، لیکن حکومت نے کوئی ایکشن نہ کیا، بلکہ اگر شرجیل میمن نے کچھ ’’ری ایکشن‘‘ دینے کی کوشش بھی کی، تو ان کو ناصر حسین شاہ نے سمجھا کر بیٹھا دیا۔
قارئین، ہم نے تو ضیاء الحق اور مشرف کے آمرانہ ادوار کو بھی دیکھا۔ وہاں بھی اسمبلی کے اندر حزبِ اختلاف جو مرضی کرتی رہتی، وہ اس وقت برداشت کرلیتے تھے۔
ہمارے سامنے پنجاب اسمبلی میں فضل حسین راہی نے جنرل ضیا پر براہِ راست تنقید کی کہ وہ وردی پہن کر کس حیثیت اسمبلی آیا ہے؟ بے شک بعد میں اس کو یہ جسارت بھگتنا پڑی، لیکن اس وقت ضیاء الحق نے روایتی مسکراہٹ سے اس کو ’’اگنور‘‘ کیا۔ پھر مشرف جب اسمبلی تقریر کرنے آیا، تو پوری قوم نے دیکھا کہ ن لیگ اور پی پی کے ارکان جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کی تصاویر لے کر نعرے لگاتے رہے لیکن مشرف تقریر کرتا رہا۔ تو آپ تو جمہوری ہیں! آپ کا دعوا ہے کہ آپ عوام کے ووٹ سے آئے ہیں۔ پھر سیاسی طور پر بھی یہ سب حرکات صرف حکومت واسطے ’’کاؤنٹر پروڈکٹیو‘‘ ہوتی ہیں۔ اس سے حکومت کی کم زوری کا تاثر پیدا ہوتا ہے اور جب حکومت کی کم زوری کا تاثر پیدا ہو، تو پھر حکومتی نظام کم زور ہو جاتا ہے۔ حکومتی ادارے منھ زور ہو جاتے ہیں اور سرکاری ملازمین خود مختار۔
دوسرے الفاظ میں حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہو جاتی ہے جس سے معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سو اس وجہ اب حکومت خاص کر جناب وزیراعظم کو یہ ذہن تبدیل کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ وہ ہر جگہ ’’جلسۂ عام‘‘ نہ بنایا کریں۔ اب وہ کنٹینر پر موجود حزبِ اختلاف کے نمائندے نہیں بلکہ پورے ملک کے انتظامی سربراہ ہیں۔ ملک کے اندر استحکام اور اسمبلی کے اندر ماحول کی بہتری نہ صرف ان کی قانونی ذمہ داری ہے بلکہ ان کی سیاسی و انتظامی ضرورت بھی ہے۔ کیا وزیر اعظم نے وہ منظر نہیں دیکھا کہ ایک وفاقی وزیر میز پر کھڑا ہو کر بجٹ کی دستاویز کو اسلحہ بنا کر مخالفین پر حملہ آور ہو رہا ہے؟
چلو، اول دو دن تو جو ہونا تھا ہوا، لیکن تیسرے دن جب کچھ چیزیں سپیکر نے طے کردی تھیں، تو کیا محبوری ہوئی کہ جوں ہی قائدِ حزبِ اختلاف تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، آپ کے حکومتی ارکان نے اسمبلی کو ایک دفعہ پھر مچھلی منڈی بنا دیا۔ یہاں معذرت کے ساتھ سپیکر کا رویہ بھی بہت شرمناک تھا۔ کیوں کہ تیسرے دن ابتدا حکومتی ارکان نے کی، تو اس وقت سپیکر کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری تھی کہ وہ حکومتی ارکان کو کنٹرول کرتے۔ بے شک ضرورت کے تحت وہ سارجنٹ کو طلب کر لیتے اور شور شرابا کرنے والے حکومتی ارکان کو نکال باہر کرتے۔ اس سے نہ صرف اپوزیشن کی انا کی تسکین ہو جاتی بلکہ ماحول بہتر بنانے میں حکومت کی سنجیدگی بھی واضح ہو جاتی۔ لیکن افسوس! سپیکر کا رویہ یہ ہے کہ کل مَیں نے خود ٹی وی پر دیکھا کہ پی پی پی کے رکن آغا رفیع کہ جن کو دوسرے چھے ممبران کے ساتھ معطل کیا گیا ہے، وہ حلفاً کہہ رہے تھے کہ جس وقت اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی، اس وقت وہ اسمبلی ہال تو دور بلکہ اسمبلی بلڈنگ میں بھی موجود نہ تھے۔ ان حالات میں کس طرح اسمبلی چل سکتی ہے اور کس طرح کاروبارِ حکومت جاری رہ سکتا ہے؟
اب کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کا یہ رویہ وقتی جذباتی رویہ نہیں بلکہ یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر ایک باقاعدہ سازش کے تحت کروایا جا رہا ہے، پارلیمنٹ کو بے توقیر اور اسمبلی کی اہمیت ختم کرنے کے لیے۔ کیوں کہ وزیراعظم تو شروع ہی سے پارلیمانی نظام کے خلاف ہیں اور صدارتی نظام چاہتے ہیں۔ جب کہ وزیراعظم کو یہ سبق صدارتی نظام کے نفاذ کی آڑ میں وہ لوگ پڑھا رہے ہیں جو ملک میں مروجہ جمہوری نظام کا ہی خاتمہ چاہتے ہیں۔ چوں کہ اب ان حالات میں شاید ملک میں براہِ راست مارشل لا کا نفاذ تو ممکن نہیں، سو ایک ’’کئیر ٹیکر‘‘ نظام کا بندوبست کیا جائے اور پھر اس کے کندھے پر رائفل رکھ کر ملک میں شوری اور خلافت کے نام پر پھر سے غیر جمہوری ٹولا مسلط کر دیا جائے۔
جناب وزیراعظم! یہ بات سمجھ لیں کہ جب 77ء میں کچھ لوگوں کو استعمال کیا گیا تھا ’’نظامِ مصطفی‘‘ کے نام پر، تو پھرجب نتیجہ سامنے آیا، تو انہیں لوگوں کو ایم آر ڈی کے نام پر بھٹو کی بیٹی کے چرنوں میں بیٹھنا پڑا۔ کہیں کل آپ کو بھی پھر نواز شریف کی بیٹی اور بینظیر بھٹو کے بیٹے کے ساتھ نہ بیٹھنا پڑ جائے، کسی اور نئی جمہوری جدو جہد میں۔ مگر اس چیز کا خطرہ ہے کہ پھر بہت دیر ہو جائے اور ملک میں ایک نہ ختم ہونے والا غیر جمہوری آمرانہ نظام مسلط ہو جائے ۔
سو جناب وزیراعظم! اس گلستان کو بھی بچا لیں اور اپنی حکومت کو بھی، بلکہ میرا مشورہ ہے کہ جناب سپیکر کو ہدایت کریں کہ اب پارلیمنٹ میں موجود یوسف گیلانی، فہمیدہ مرزا اور ایاز صادق سے مل کر کچھ سیکھ لیں۔ شاید کچھ نہ کچھ بہتری آجائے۔
………………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔