سوائے چند کالی بھیڑوں کے ہمیں مملکتِ خداد کی تمام پولیس سے محبت ہے۔ صحافی ظاہر عباس پنڈی میں اس وقت پولیس تشدد کا نشانہ بنا جب وہ چند پولیس اہلکاروں کی جانب سے شہریوں کی سرِعام چھترول کے مناظر اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پولیس انہیں زد و کوب کرکے حوالات لے گئی اور مزید تشدد کا نشانہ بنایا۔ جیسے ہی ’’تشدد‘‘ کی خبر ڈی پی اُو کاشف ذوالفقار کی میز تک پہنچی، تو انہوں نے تھوڑی بھی دیر نہیں کی اور فوری طور ملوث تمام اہلکاروں کو پولیس لائن بلایا اور ان کی خوب خبر لی۔ صرف یہی نہیں اسی لمحے پولیس اہلکاروں کے خلاف ڈی ایس پی ابرار خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی اور پولیس اہلکاروں کے خلاف تفتیشی رپورٹ بھیجنے کا حکم صادر فرمایا۔
آج کل وطنِ عزیز میں صحافی برادری دیدہ و نادیدہ طاقتور حلقوں کے بدترین تشدد کے نشانے پر ہے۔ عالمی میڈیا مسلسل صحافیوں کے حوالے سے خبروں کا ’’فالو اَپ‘‘ کررہا ہے۔ یقینا اس سے ہماری حکومت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہورہا ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں پولیس بھی حقائق کو پسِ پردہ ڈال کر اپنا دفاع کچھ یوں کرسکتی تھی:
٭ یہ کہ صحافی کو دھمکا سکتی تھی کہ اگر پولیس کا نام اُگل لیا، تو خیر نہیں۔ میڈیا پر بتا دو کہ بیوی نے دیر سے آنے پر ڈانٹا۔
٭ صحافی شمالی علاقہ جات کی سیر کرتے ہوئے کھائی میں گر کر زخمی ہوا۔
٭ صحافی کو لڑکی کے بھائیوں نے پیٹا۔
٭ صحافی کا ذاتی معاملہ تھا۔ مخالفین نے درگت بنا دی۔
اس کے علاوہ بہت سارے بہانے موجود تھے جیسا کہ ’’لفافہ صحافی ہے۔‘‘، ’’اسرائیل کا ایجنٹ ہے۔‘‘، ’’بیرونی میڈیا کے ایما پر پولیس کو بدنام کیا جا رہا ہے۔‘‘ ’’فُلاں وار کا حصہ ہے‘‘ وغیرہ!
مگر نہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پولیس واحد ادارہ ہے جو حقیقی معنوں میں شہری کی حفاظت کا ضامن ہے۔ جہاں دیگر اداروں کا نام لیتے ہوئے شہریوں کے حلق تک سوکھ جاتے ہیں، وہاں پولیس کو سرِ عام کیمرے کے سامنے رشوت خور، ڈاکو، کسی خان، وڈیرے کے چمچے اور غلیظ و بے بنیاد الزامات سے ذلیل کیا جاتا ہے ۔
ہاں! ہر ادارے میں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں، پولیس میں بھی ہوتی ہوں گی، مگر پولیس کے اعلا افسران نے کبھی ان کالی بھیڑوں کی پشت پناہی نہیں کی۔ پولیس نے کبھی کسی کو غدار یا ایجنٹ نہیں ٹھہرایا۔ پنڈی ایریا ’’بدنام پنجاب پولیس‘‘ کی حدود میں آتا ہے، مگر ڈی پی او کاشف ذوالفقار نے قانون کے معیار کا جس قدر پاس رکھا، اس سے صحافی برادری کو پنجاب پولیس سے ہمدردی ہونے لگی ہے کہ مائیک اور کیمرے شہریوں کے منھ لگاکر پولیس کے خلاف بھڑاس نکالنے کا کوئی موقعہ ہم نے نہیں گنوایا، مگر باوجود اس کے ایک صحافی کو بروقت انصاف ملنے پر پولیس کو سلیوٹ کرنا تو بنتا ہے۔
…………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔