کاروباری لوگ بیک وقت کامیاب اور دیانت دار نہیں ہوسکتے ۔ گویا وہ کامیاب ہوں اور خوب دولت کما رہے ہوں، تو پھر وہ بدیانتی سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ دوسری صورت میں اگر وہ دیانت دار ہوں، تو پھر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ (افلاطون، 427قبلِ مسیح تا 347 قبلِ مسیح)
٭ ارتقائی عمل سے کیا مراد ہے ؟
ارتقا دراصل فطرت، سماج اور ذہن میں درجہ بدرجہ ہونے والی تبدیلیوں کے سلسلے کو کہتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں ناگزیر قانونی رشتوں کے سبب ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر حیاتیاتی سائنس کے نقطۂ نظر سے جان داروں کی تاریخی نشوونما کے سلسلے کو جان داروں کا ارتقا کہتے ہیں۔ ارتقا کی اصطلاح سے دوسری مراد مقداری تبدیلیوں کا عمل ہے۔
٭ تاریخ کیا ہے ؟
یہ کیسے اور کیوں کہ ہمارے سمجھ اور علم میں اضافہ کرتی ہے۔ اس علم کے ذریعہ ہم تہذیب کی پیدائش اور اس کے پھیلاؤ سے واقف ہوں گے۔ اگر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ تاریخ کیا ہے؟ تو اس کا سیدھا سادہ اور آسان جواب یہ ہوگا کہ تاریخ گزرے ہوئے واقعات کا مجموعہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال یہ ہوگا کہ کیا ماضی میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ میں موجود ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ تاریخ میں وہی واقعات درج ہوتے ہیں جن کی اہمیت ہوتی ہے، یعنی جن واقعات کا اثر سیاست، ہمارے رہن سہن، ثقافت اور ہماری مالی حالت پر ہوتا ہے۔ اس جواب سے یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کون سے واقعات اہم ہیں اور کون سے غیر اہم؟ ظاہر ہے اس کا جواب ہوگا کہ یہ کام مؤرخ کا یعنی تاریخ لکھنے والے کا ہے۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ واقعات کی اہمیت کو جانچے اور پھر انہیں تاریخ کا حصہ بنائے ۔
٭ تاریخ کون بناتا ہے ؟
عام طور پہ یہ کہا جاتا ہے کہ بڑے لوگ تاریخ بناتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کو تاریخ میں عظیم یا ہیرو کہا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کو بنانے میں عام لوگوں کا حصہ ہوتا ہے۔ مثلاً عمارتوں کی تعمیر میں عام مزدور ہوتے ہیں، کھیتوں میں کاشت کرنے والے عام کسان ہوتے ہیں، جنگ میں لڑنے والے عام سپاہی ہوتے ہیں۔ یہ عام لوگ زندگی کے ہر شعبے میں محنت مزدوری کرکے معاشرے کو خوشحال بناتے ہیں۔ تاریخ میں بڑے لوگوں کا ذکر اس لیے آتا ہے کہ ان کے پاس طاقت ہوتی ہے، دولت ہوتی ہے، اقتدار ہوتا ہے، اختیار ہوتا ہے، اس لیے وہ تاریخ کو اپنی مرضی سے لکھواتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ اکیلے اور تنہا کچھ نہیں کر سکتے جب تک عام لوگ ان کے ساتھ نہ ہوں ۔ اس لیے تاریخ بڑے لوگ نہیں بلکہ عام لوگ بناتے ہیں ۔
٭ سماجی و سیاسی ارتقا کیا ہے؟
صدیوں سے انسانی دماغ کی پرورش اور نشو و نما جاری ہے۔ ارتقا کے اس سفر میں انسانی دماغ پہلی نسلوں کی نسبت اب زیادہ بڑا اور پیچیدہ ہوگیا ہے اور یہ مزید ترقی کی طرف گامزن ہے۔ دماغ کی اس ترقی کے ساتھ انسان کے سماجی شعور میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
٭ سماجی ارتقا:۔
انسانی سماج کے ارتقا کی تاریخ، ذرائعِ پیداوار کی ترقی کی تاریخ ہے۔ تہذیب کے ماقبل تاریخ دور کو سماجی ارتقا کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: عہدِ وحشت، عہدِ بربریت اورعہدِ تہذیب۔
عہدِ وحشت:۔
عہدِ وحشت جس میں انسان قدرت کے خزانے سے وہی چیزیں لیتا تھا جو کھانے پینے کے لیے تیار ملتی تھیں۔ انسان خود ایسے اوزار تیار کرتا تھا جن سے ان چیزوں کو لینے میں آسانی ہو۔ اس عہد کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ابتدائی دور، درمیانی دور اور آخری دور۔
٭ ابتدائی دور:۔
یہ نسلِ انسانی کے بچپن کا دور ہے۔ انسان ابھی تک اپنے ابتدائی مسکن یعنی گرم یا نیم گرم علاقوں کے جنگلوں میں رہتا تھا اور کم از کم ایک حد تک درختوں پر بسیرا کرتا تھا۔
٭ درمیانی دور:۔
اس کی ابتدا اُس وقت سے ہوتی ہے جب مچھلی انسانی غذا میں شامل ہوئی اور آگ کا استعمال ہونے لگا۔
٭ آخری دور:۔
اس کی ابتدا تیر کمان کی ایجاد سے ہوئی جس کی وجہ سے جنگلی جانوروں کا گوشت غذا کا باقاعدہ جزو بن گیا اور شکار کا عام رواج ہوگیا۔
٭ عہدِ بربریت:۔
جس میں انسان نے مویشی پالنا اور کھیتی کرنا یعنی اپنی محنت سے قدرت کی زرخیزی کو بڑھانے کا طریقہ سیکھا۔ عہدِ بربریت کو بھی تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:
ابتدائی دور، اس کی ابتدا مٹی کے برتن سے ہوئی۔
درمیانی دور، اس کی ابتدا مشرق میں جانور پالنے سے اور مغرب میں آب پاشی کے ذریعے غذائی پودوں کی کاشت اور مکان بنانے کے لیے کچی اینٹوں اور پتھر کے استعمال سے ہوتی ہے۔
آخری دور، اس کی ابتدا اس زمانے سے ہوئی جب کچے لوہے کو پگھلا کر صاف کیا جانے لگا اور جب حروفِ تہجی لکھنے کا فن ایجاد ہوا اور ادبی تحریروں میں اس سے کام لیا جانے لگا، تو رفتہ رفتہ یہ دور ختم ہو کر تہذیب کے عہد میں مل گیا۔
٭ تہذیب کا عہد:۔
تہذیب کا عہد وہ عہد ہے جس میں انسان نے قدرت کی نعمتوں سے مزید کام لینا سیکھا اور صنعت و حرفت اور فنون کی واقفیت حاصل کی۔ اس دور میں اس نے بہت زیادہ اضافہ کیا اور انسانی زندگی پُرآسائش دور میں داخل ہوئی۔
٭ استحصال کیا ہے ؟
استحصال سے مراد انسانی محنت کی چوری ہے، یعنی جب محنت کش کو اس کی محنت کی پیدوار سے کم ملتا ہے اور باقی کی پیدوار وہ فرد یا افراد لے جاتے ہیں جن کے لیے محنت کش کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
٭ طبقہ اور طبقاتی جد و جہد کیا ہے ؟
طبقہ ایک طبقاتی سماج کی حقیقت ہے۔ طبقہ اصل میں افراد کا ایک ایسا عضویاتی گروہ ہے جو سماجی پیدوار کے عمل سے ایک خاص رشتے میں بندھا ہوتا ہے اور پیدوار کے عمل میں یہی خاص رشتہ افراد کے درمیان وجود رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر غلامانہ سماج میں محنت کی پیداوار اس کی نوعیت کی ہوتی تھی جس میں آقا طبقہ، محنت کشوں کو ملکیت میں تبدیل کرکے ان کا مالک بن جاتا تھا۔ ایک طبقاتی سماج بنیادی طور پر استحصال اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ طبقاتی سماج، پیداواری قوتوں کے ارتقا کے ایک خاص مرحلے میں ابھرتا ہے۔ اس سماج میں محنت کی ایسی تقسیم جنم لیتی ہے جس میں ایک طبقہ دوسرے طبقے کی پیداوار کے بڑے حصے کا مالک بن جاتا ہے۔
اب آتے ہیں پرولتاریہ، لمپن پرولتاریہ، پیٹی بورژوا اور بورژوا ان اصطلاحات کی تعریف کی طرف:
٭ پرولتاریہ:۔
سرمایہ دارانہ نظام میں وہ طبقہ جو پیداواری عمل میں پیداواری ذرائع سے مکمل طور پر محروم ہوتا ہے۔ اس طبقے کے پاس سوائے اپنی محنت کی صلاحیت بیچنے کے اور کوئی ملکیت نہیں ہوتی اور اس کے گزر بسر کا ذریعہ اجرت ہوتی ہے۔ اس طبقے کا استحصال کرنے والی طبقاتی قوت، سرمایہ دارانہ ہوتی ہے۔
٭ لمپن پرولتاریہ:۔
یہ پرولتاریہ طبقے کی زوال پذیر شکلوں کی سماجی تہہ ہے۔ اس سماجی تہہ میں جسم فروش، بدمعاش، چور، بھکاری، مجرم اور بے روزگار وغیرہ شامل ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحرانوں کے ادوار میں اس سماجی تہہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بہت سے پیداواری عمل رُک جانے کا باعث پرولتاریہ طبقہ اپنی لمپن پرولتاریہ والی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
٭ بورژوازی:۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام میں پرولتاریہ طبقے کی طرح دوسرا بنیادی طبقہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے سارے پیداواری ذرائع پر قابض ہوتا ہے۔ یہ طبقہ، سرمایہ دارانہ نظام میں پرولتاریہ طبقے کا استحصال کرنے والی ایک بنیادی قوت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے جینے کا دار و مدار منافع پر ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے کی بنیادی لڑائی اسی بورژوازی طبقے کے ساتھ ہوتی ہے اور اسی طبقے کے خاتمے سے ذاتی ملکیت کا راج اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
٭ پیٹی بورژوا:۔
یہ سرمایہ دارانہ طبقے کا وہ حصہ ہے جس میں دکان دار، چھوٹے بیوپاری، ماہرین، ڈاکٹر، استاد، وکیل وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سماجی تہہ، سرمایہ داری کے بحران اور شدید طبقاتی جد و جہد کے نتیجے میں دونوں طبقوں یعنی سرمایہ دار اور محنت کش کے درمیان اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط طبقے کے ساتھ جوڑتا ہے، یعنی جو طبقہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے یہ اس کے ساتھ مل جاتا ہے ۔
٭ انقلاب کسے کہتے ہیں؟
انقلاب، فطرت، سماجی اور شعور کی نشوونما کے سلسلے میں ایک ایسی معیاری تبدیلی کا نام ہے جو نشوونما کے ایک مرحلے کو دوسرے مرحلے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں فطرت، سماج اور شعور کی نشو و نما میں معیاری تبدیلی کے عمل کو انقلاب کہتے ہیں۔ مارکسی علم کے مطابق سماج میں انقلاب تب برپا ہوتا ہے جب پیداواری رشتے قوتوں کی ترقی کے عمل میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں گذشتہ پیداواری قوتیں، پیداواری رشتوں کو توڑ کر نئے پیداواری رشتوں کی تشکیل کرتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں یہ مرحلہ پُرامن اور تشدد دونوں طریقوں سے اپنا اظہار کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب جاگیردارنہ سماج میں پیداواری قوتیں، مشینی دور میں داخل ہوئیں، تو اس کے نتیجے میں جاگیردار اور کسان کے پیداواری رشتے مشینی دور کی ترقی میں رکاوٹ بن گئے۔ اس مرحلے میں مشینی پیداواری قوتوں نے پرانے جاگیردارنہ اقتصادی رشتوں کی کایا پلٹ کر انہیں سرمایہ دارانہ رشتوں میں تبدیل کر دیا اور یوں انسانی تاریخ میں سرمایہ دارانہ سماجی اقتصادی نظام کی ابتدا ہوئی۔ انسانی تاریخ کا سلسلہ غلامانہ، جاگیر دارانہ، سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ انقلابات پر محیط ہوتا ہے۔
بقولِ کارل مارکس:’’فلسفیوں نے اب تک دنیا کی تشریح کی ہے لیکن اصل کام تو اسے تبدیل کرنا ہے۔‘‘
کتابیات:۔ بالشویک کا نقطۂ نظر،صفحہ 53 تا 54 ازمشتاق علی شان۔انقلاب کی دہلیز تک، صفحہ 7 از ڈاکٹر لال خان۔ تہذیب کی کہانی پتھر کا زمانہ، صفحہ 15 تا 16 اور صفحہ نمبر 34 از ڈاکٹر مبارک علی۔ انقلاب کی دہلیز تک، صفحہ 21 تا 27 از ڈاکٹر لال خان۔ سوشلزم کیا ہے؟ صفحہ 16 از عمران کامیانہ۔ بالشویک کا نقطۂ نظر، صفحہ 53 اور 65 تا 66، نیز صفحہ 77تا 78 از مشتاق علی شان۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔