چند دن پہلے اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر ایک جادوئی نمبر پہ ڈالا۔ دو دن بعد کوئی جواب نہ آیا۔ دوبارہ ڈالا، تو جواب آیا کہ فلاں جگہ یا قریبی سینٹر جاکر ویکسین لگوا لیں۔ دل میں وسوسے اٹھے۔ مقررہ تاریخ قضا کردی۔ ایک ساتھی نے بھی اس طرح کیا تھا۔ ایک شام کو اس کے ہاں گیا، تو اس نے سینٹر کو فون کیا اور خصوصی طور پر ہمارا نام بھی وہاں رجسٹر کرایا۔
گذشتہ دن وہ اپنی گاڑی لے کر آگیا اور مجھے بھی ساتھ لے گیا۔ پہلے تو مَیں سمجھا کہ میرا یہ ساتھی ضرور بل گیٹس کا ایجنٹ بنا ہوا ہے کہ مجھ کو ویکسین لگوانا چاہتا ہے۔ خیر بے دلی سے ان کے ساتھ گیا۔ وہاں موجود عملے نے مذاق مذاق میں ویکسین لگائی۔ وہاں سے نکل کر اپنی جگہ پہنچا، تو نیند کم ہونے کی وجہ سے اونگھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گیا۔ نیم خوابی کی حالت تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بل گیٹس سامنے کھڑے ہیں۔ پہلے تو اپنی غیرت اسے دیکھ کر جاگ اُٹھی اور ویکسین بھول کر اس پر چلایا۔ بے غیرت! تم یہاں کیا کرتے ہو؟ تم نے ’’ملنڈا‘‘ کو طلاق دی؟ تم اتنے بے غیرت ہو کہ طلاق کے باوجود بھی اس فاؤنڈیشن میں اس کے ساتھ رہو گے!
بل گیٹس نے کچھ نہ کہا۔ فقط سامنے میرے ٹیبل پر سجائی گئی جھنڈی پر نظر ڈال کر مسکرا کر کہا: ’’تم اپنے طور پر درست کہتے ہو، مگر ہمارے ہاں ایسی کوئی دشمنی نہیں پالی جاتی۔‘‘ پھر بولے، ’’یہ باتیں چھوڑیں، مَیں کسی اور مقصد کے تحت آیا ہوں۔‘‘ مجھے فوراً یاد آیا کہ مَیں نے آج کورونا کے خلاف پہلا مدافعاتی ٹیکا لگوایاہے۔ سمجھ گیا کہ چپ ڈالی ہے۔ اب میری خیر نہیں۔ اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ وہ میرا دماغ کھول کر اس میں کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مَیں نے پوچھا: ’’بھائی کیا ہے؟‘‘ اس نے جو جواب دیا سنیں: ’’آپ کے دماغ کے ایک پورے خانے میں گرم ہوا بھری ہوئی ہے۔ دوسری جانب آپ کا دماغ نیلے تھوتھے کی طرح ہوچکا ہے۔ ایک اور کونے میں پانی کی طرح کوئی سیال مادہ جمع ہوچکا ہے۔‘‘ مَیں نے پوچھا: ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ جواب دیا: ’’خود ہی سلجھا لو!‘‘ اُن سے کچھ نہ بن پایا، تو مَیں نے جواب دیا: ’’جس خانے میں گرم ہوا بھری ہے، وہ میرے بچپن کی محرومیاں ہیں۔ جہاں دماغ کا حصہ نیلا ہوچکا ہے یہ لوگوں کے طعنے ، گالیاں اور فتوے ہیں اور جس کونے میں آپ کو سیال مادہ نظرآرہا ہے، وہ اصل میں وہ گناہ ہیں جو میں کر نہ سکا۔‘‘ مَیں نے مزید کہا کہ ’’یہ توآپ نے اس دماغی کرے کا نصف حصہ دیکھا ہے۔‘‘ بل گیٹس بولے، ’’اگر ایسا ہے، تو میں دوسرا نصف بھی دیکھوں گا۔‘‘ دماغ کو الٹا کر کچھ دیر سکتے میں پڑ گئے اور پھر گویا ہوئے: ’’اس نصف حصے کا ایک کونا رات کی سیاہی کی طرح کالا ہے۔ دوسرے حصے میں کچھ حروف اور الفاظ بے ربط گردش کر رہے ہیں، اور اس آخری حصے میں ایک چھوٹا سا پھول نظر آ رہاہے۔‘‘ مَیں نے ان سے کہا: ’’یہ سب تو اب آسان ہے، جواب دیں!‘‘ وہ بولا: ’’یہ دوسرا حصہ سمجھ میں آتا ہے کچھ کچھ، مگر باقی نہیں۔ اس دوسرے حصے میں لگتا ہے کہ آپ کے وہ بے ربط مطالعاتی کتابیں ہیں جن کو آپ نے پڑھا ہے، مگر ہنوز کوئی ارتکاز نہیں۔‘‘ مَیں نے جواباً کہا: ’’یہ تم نے درست تجزیہ کیا۔ ایسا ہی ہے۔ اس سیال جدیدت کے دور میں ارتکاز کہاں نصیب ہوتا ہے؟ اس بپھرے سمندر میں غوطے ایسے ہی بے ربط لگائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فاؤسٹ کی طرح ہر علم پر دسترس کی خواہش یوں بکھیر دیتی ہے۔‘‘ وہ بولے: ’’یہ آپ نے ٹھیک کہا۔‘‘ پھر پوچھا کہ ’’اس تاریک کونے اور پھول والے کونے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟‘‘ پہلے شرمندہ ہوا مگر کہنا پڑا: ’’یہ تاریک کونا وہ ہے جہاں نفرتیں اور غصہ بھرا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ اس خانے کے حجم میں کشادگی ہورہی ہے۔ یہ پہلے نصف کے اس خانے سے جڑ جاتا ہے جہاں طعنے، گالیاں اور فتوے پڑے ہیں۔ آخری خانے میں یہ جو چھوٹا سا پھول نظر آتا ہے، یہ میرا بیٹا اور میری فیملی ہے۔ یہی لوگ اس صحرا میں پھول کی طرح کھلے ہیں۔‘‘ میری آخری باتیں سن کر پوچھنے لگے: ’’تم نے ویکسین چائینہ والی لگوائی ہے کہ روسی؟‘‘ میرا جواب تھا: ’’روسی!‘‘ بولا، ’’اب دوسرے منظر میں ژی جن پنگ اور پیوٹن کی لڑائی دیکھ۔ مَیں جا رہا ہوں۔ یہ تاریکیاں، محرومیاں اور نفرتیں میرے کام کی نہیں!‘‘
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔