مشہور عرب شاعر خلیل جبران کی ایک نظم ہے جس کا حاصل یہ ہے:
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو مذہب کے نام پر قومیت حاصل کرے اور پھر بھی سچائی، راست بازی اور احتساب نہ ہو جو ہر مذہب کی روح ہے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو جمہوریت کو اپنائے لیکن ان کی جمہوریت صرف قِطار میں کھڑے ہوکر ووٹ ڈالنا ہو، باقی کوئی جمہوری قدر نہیں۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو کامیابی اور اقتدار کی عزت کرے اور روحانی اونچائی کو ناپسند کرے اور دنیوی دکھاوے کو پسند کرے۔
مجرم کو ہیرو، شریف کو کمزور، دانا کو احمق سمجھے اور بدکار کو عزت دے۔
جس نے آئین کا انتخاب کیا، جس میں سیاسی مفادات آئین سے بالاتر ہیں، جو سب کے لیے انصاف کا تقاضا کرے مگر جب انصاف اس کی سیاسی وفاداری کے خلاف ہو، تو مشتعل ہو۔
جس کے گھر کے خدمت گار دفتر سنبھالنے سے پہلے حلف اٹھانے کو ایک رسمی کارروائی سمجھیں۔
جو حکمرانوں کو مسیحا کے طور پر چُنے اور پھر امید رکھے کہ وہ ہر قانون کو اپنے محسنوں کے حق میں موڑ دے۔
جن کے لیڈر نافرمانی میں شہادت تلاش کریں، نہ کہ قانون کی فتح کی خاطر قربانی دیں۔
جو قوم جرم کرتی ہے اور شرم محسوس نہیں کرتی۔
جس کی قیادت وہ لوگ کریں جو قانون کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر یہ نہیں جانتے کہ آخری فتح قانون ہی کی ہوتی ہے۔
قارئین، کیا یہ ہمارا نوحہ نہیں یا ہمارے جیسے دیگر اقوام کا……؟ اس لیے کہ اخلاقی تنزلی ہر جگہ ہے۔ اور حاصل اس کا یہ ہے کہ ہماری عقل یا تو جواب دے چکی ہے، اس لیے ہم غلطی پر غلطی کرتے جا رہے ہیں۔ غلطیاں قوم کرے، تو بھی تباہی……! اور حکمران کریں، تو اس سے بھی بڑھ کر تباہی۔ اکثر حکمران سوچتے ہیں کہ یہ جو مَیں اقتدار میں آیا ہوں، تو اب مجھے زوال نہیں آسکتا۔ یہ چیز عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے اور عقل پر پردہ آئے، تو پھر بندہ ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے اور اوندھے منھ گر جاتا ہے۔ جب گرنے پر آئے، تو اسے ہر جانب سازش نظر آتی ہے جب کہ یہ سازشی تصور اس وقت نظر آتا ہے جب ذہن کے ارد گرد کی صورتِ حال یا مستقبل کو پڑھنے میں بندہ ناکام ہوجاتا ہے۔ یعنی ذہن رُک جاتا ہے، کام نہیں کرپاتا، تو اس کو سازش نظر آتی ہے۔ حالاں کہ سازش اگر کوئی ہے، تو اس کا نفس کرتا ہے یعنی وہ اپنے اندر جھانکیں، تو اس کو نظر آئے گا۔
سیاسی نظم اگر قانون، آئین اور اقدار پر استوار ہو نہ کہ کسی کی خواہش پر، تو اس سے پھر معاشرے کو تحفظ ملتا ہے۔ قانون اور آئین کی پاس داری اور اقدار و روایات کا لحاظ معاشرے کو آگے لے جاتا ہے۔ ورنہ معاشرہ میں جمود اور گھٹن پیدا ہوتا ہے اور گھٹن میں دم گھٹتا ہے۔ مہذب معاشرے میں آئین اور قانون کا احترام ہوتا ہے اور ہر بندہ ریلیکس ہوتا ہے۔ آئین کے احترام سے وحدت آتی ہے۔ ریاست میں استحکام، آئین کی عمل داری اور عوام کا اس پر اور اس کا عوام پر اعتماد سے آتا ہے۔ گھٹن والے معاشرے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ کوئی لبرل ازم کی بات کرتا ہے، تو کوئی تنگ نظر قومی مفاد کا اور ہر دو فساد لے آتے ہیں۔ قوم پرستی، جارحیت پیدا کرتی ہے اور لبرل ازم بے لگامی۔ اگر اس پر اتفاق کیا جائے کہ قوم پرستی جارح نہ ہو اور لبرل ازم بے لگام، تو پھر کچھ خیر آسکتا ہے۔
آج دو چیزیں ہیں:
٭ ایک منڈی کی معیشت کہ حکومتی مداخلت نہ ہو۔
٭ دوسرا مقامی جمہوریت کہ مداخلت ہو، تاکہ عوام مصائب کا شکار نہ ہوں۔
یہ دونوں بھی اگر بلا حدود و قیود نہ ہوں، تو معاشی ابتری پھیلتی ہے۔ امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ نرخ مقرر کرنا حکومت کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں کہ وہ ایسا کریں۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو آزاد چھوڑیں کہ کاروبار کریں، تاکہ معیشت پروان چڑھے۔ ہاں، اگر وہ استحصال کریں، لوگوں کا خون چوسیں، تو پھر حکومت نرخوں میں مداخلت کرے۔
اسی طرح سیاست میں شورائیت ہو، آزادی بھی ہو لیکن حدود و قیود میں۔ مساوات، حریت، رواداری، عدل، انتخاب اور شورائیت اسلام کے اصول ہیں۔ ان پر عمل ہو، تو انسانیت کو خیر مل سکتی ہے۔ اللہ تعالا ہماری حالت پر رحم فرمائے۔ ہم قابلِ رحم قوم ہیں، لیکن ’’جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا!‘‘
……………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔