عبدالستار کی والدہ کی طبیعت ایک دن زیادہ خراب ہوئی۔ یہ پاکستان کے قیام کے ابتدائی سال تھے۔ ملک میں ایمبولینس کا کوئی تصور نہ تھا۔ بڑی تلاش کے بعد عبدالستار والدہ کے لیے ایک رکشہ لے کر آئے، تاکہ والدہ کو اسپتال لے جاسکیں، مگر اتنی دیر میں والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ ماں کی موت نے عبدالستار کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایسے کتنے مریضوں کو بروقت سواری کی سہولت نہیں ملتی ہوگی۔ اس وقت انہیں ’’ایمبولینس سروس‘‘ کا خیال آیا۔
اوّل اوّل ایک پرانی سوزوکی کو ایمبولینس بنا کر انہوں نے خدمت کا سفر شروع کیا۔ پھر ان کے قدم رُکے نہیں۔ وہ خدمتِ انسانیت کے اس سفرمیں ایمبولینس کا ایک بڑا بیڑا بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
آج ’’ایدھی ایمبولینس سروس‘‘ کو پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ دنیا بھر میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ آج اس شخصیت کو ہم ’’عبدالستار ایدھی‘‘ کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔ وہ تو اس دنیا سے چلے گئے، مگر ان کے قائم کیے ہوئے ادارے آج بھی انسانوں کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔
(ماہنامہ ’’ہمدرد نونہال‘‘، ماہِ مئی 2021ء، صفحہ نمبر 33 سے انتخاب)