کہتے ہیں کہ ہر بچہ اپنے والدین کو شہزادوں کی طرح لگتا ہے۔ اگر کسی کا بچہ کالا ہو، تو والدین کو وہ گورا چٹا لگتا ہے۔ بچوں والے والدین کو معلوم ہے کہ جب بچہ دو سال تک کا ہو جائے، اور توتلی زبان میں باتیں شروع کرنے لگے، تو والد کو گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنے جگر کے ٹکرے کی باتوں سے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرے۔ اس طرح معذور افراد کا خیال تن درست افراد سے زیادہ رکھا جاتا ہے، لیکن ریاستِ مدینہ (پاکستان) میں غربت اس حال تک پہنچی ہے کہ اب لوگ اپنے کمسن بچوں، خواتین حتی کہ معذور افراد کو ماہانہ کرایہ پر دیا کرتے ہیں۔ مذکورہ افراد کی مدد سے بھکاری مافیا ہم جیسے سادہ لوح افراد کو گھیر کر بھیک اکھٹا کرتا ہے۔
قارئین، بھکاری مافیا نے پنجاب کے مختلف اضلاع سے کرایہ پر حاصل شدہ انسانوں کی نئی کھیپ سوات پہنچا کر ان سے رمضان میں بھیک مانگنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ مافیا کے پنجابی ارکان نے امسال گوجرانوالہ اور منڈی بہاؤ الدین کے دیہاتی علاقوں سے مرد اور خواتین، معذور اور بچے کرایہ پر حاصل کرکے سوات پہنچائے ہیں۔ اس مافیا کے سوات میں بھی ارکان ہیں جو پہنچائی گئی کھیپ کو یہاں رہائش وغیرہ فراہم کرتے ہیں۔
پنجاب کے وہ دیہاتی علاقے جہاں غربت زیادہ ہے، مافیا کے ارکان وہاں عورتوں، بچوں اور معذوروں کو ماہانہ کرایہ پر حاصل کرتے ہیں۔ ان کو خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں خاص کر پشاور اور سوات پہنچایا جاتا ہے۔ مذکورہ افراد کے گھر والوں کو ایڈوانس رقم دی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق ان انسانوں کا ماہانہ کرایہ فی کس دس ہزار سے چالیس ہزار تک دیا جاتا ہے۔ ان کو جب مختلف گاڑیوں میں مختلف شہروں میں پہنچایا جاتا ہے، وہاں مقامی مافیا کے ارکان ان کے لیے رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ معذور افراد کو علی الصباح اندھیرے میں گاڑی میں شہر کے مختلف علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ خواتین اور بچوں کو مختلف جگہوں کی نشان دہی کی جاتی ہے۔
یہ مافیا دو تا دس سال بچوں کو بھی کرایہ پر لیتا ہے جن میں چھوٹے بچوں کو نشہ آور دوا کھلائی جاتی ہے اور اسے کسی بھکارن کے حوالے کرکے تپتی دھوپ میں دن بھر سڑکوں پر رکھ کر ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ چھے سال سے بڑے بچے اور بچیاں خود بھیک مانگتی ہیں۔ ان کو ایک مخصوص ٹارگٹ دیا جاتا ہے، جس کے پورا نہ ہونے پر رات کو ان کو مار بھی پڑتی ہے۔
سوات میں نئے آنے والے بھکاریوں کے لیے اس دفعہ تین طرح کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ مینگورہ کے کانا بابا روڈ پر ہوٹلوں میں کمرے حاصل کیے گئے ہیں۔ کچھ افراد کے لیے مکانات کرایہ پر لیے گئے ہیں اور باقی کے لیے خیمے لگائے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس دفعہ دو سو سے زائد بھکاریوں کو سوات لایا گیا ہے۔
ان کیمپوں میں ایک خاتون کھانا پکانے کے لیے بھی ہوتی ہے۔ مذکورہ افراد کو مضر صحت کھانا دیا جاتا ہے۔
مافیا کے ارکان معذوروں اور بچوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمسن بچوں کو دودھ کی جگہ چائے دی جاتی ہے۔ روتے وقت ان کی پٹائی کی جاتی ہے۔ ماں کی گود کے بغیر ان بچوں کو زمین پر بچھی چٹائی پر سلایا جاتا ہے۔ معذور افراد کا بھی کسی قسم کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
اس وقت مینگورہ شہر اور آس پاس کے علاقوں میں بھکاریوں کی اچھی خاصی تعداد نظر آتی ہے۔ مختلف شاہراہوں پر معذور افراد بھی بھیک مانگتے ہیں۔ ان بھکاریوں کو اُردو نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ ’’اللہ کے نام پر‘‘ اور اس قبیل کے دیگر الفاظ ادا کرتے ہیں۔
تھانہ رحیم آباد پولیس نے گذشتہ دنوں ایسے چند بھکاریوں اور مافیا کے ارکان کو پکڑ کر ضلع بدر کیا ہے۔ اس حوالہ سے ایس ایچ اُو مجیب عالم خان کے مطابق گرفتار ہونے والے مرد اور خواتین میں سے زیادہ کا تعلق ضلع گوجرانوالہ کے علاقہ ڈکھیالی سے ہے۔ مافیا کا ایک رکن کچی آبادی پشاور سے تعلق رکھتا ہے۔
قارئین،کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ کون اپنے لختِ جگر کو کئی ماہ کے لیے کچھ رقم کے عوض کسی کو کرایہ پر دے گا؟ یہ غربت ہی جس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو کرایہ پر دیتے ہیں، انہیں فروخت کرتے ہیں، حتی کہ مجموعی خود کشی بھی کرلیتے ہیں۔ایسے میں ریاستِ مدینہ میں اربوں جنگی اشیا پر پھونکے جاتے ہیں اور حاصل کچھ نہیں۔
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔