مشہور سوئس نژاد امریکی ماہرِ نفسیات ’’ایلیزبتھ کوبلر راس‘‘ نے کسی فرد میں پانچ قسم کے ردِعمل کی نشان دہی کی ہے، جب اس کا سامنا کسی بیماری یا دکھ سے ہوتا ہے۔ یہ پانچ ردِعمل یا مرحلے آفت اور وبا کی صورت میں انسانوں کی مجموعی زندگی میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور مرض یا دکھ کی کی صورت میں انفرادی طور پر بھی۔
٭ پہلا مرحلہ انکار (Denial) کا ہوتا ہے، جہاں انسان اس طرح کی کسی انفرادی دکھ یا اجتماعی طور پر کسی وبا کے وجود سے انکار کرتا ہے۔ اجتماعی صورت میں اس کو کسی سازش سے منسوب کرتا ہے۔
سازش والا یہ نظریہ اگلے مرحلے میں بھی رہتا ہے جو کہ غصّے (Anger) کا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں بیماری یا دکھ سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر انفرادی اور اجتماعی طور پر انسان غصہ ہوتا ہے کہ ایسا اس کے یا ان کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟
اس غصے کو کسی وبا یا آفت کی صورت میں اجتماعی ردِعمل کے طور پر یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کواجتماعی گناہوں کا نتیجہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جب ان دونوں حقائق کا ادراک ہوجاتا ہے اور اس وبا یا آفت کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہوتا، تو انسان پھر اس تلخ حقیقت سے ایک طرح کا لین دین (Bargaining) شروع کردیتا ہے کہ کسی طرح اس مصیبت کو ٹالا جاسکے، اس کو ملتوی کیا جاسکے یا اس کی شدت کو کم کیا جاسکے۔ اسی مرحلے میں علاج معالجہ یا دوسری سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں، تاکہ کسی بہانے اس بلا کو کچھ وقت کے لیے ٹالا جاسکے، یا اس کی شدت کو کم کیا جاسکے۔ اس مرحلے پر انسان تدبیریں کرتا ہے۔
اس سے اگلہ مرحلہ یا ردعمل دل شکستگی یعنی یاس (Depression) کا ہوتا ہے جہاں تدبیریں کام نہیں آتیں اور انسان مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے اور آخرِکار میر تقی میر کے شعر
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
کے مصداق اس آفت کو قبول کرتا ہے۔ جہاں یہ ردعمل انفرادی طور پر اس صورت میں نمایاں ہوتا ہے کہ اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا خیال ستاتا ہے۔ بندہ تنہا ہوجاتا ہے اور غمگین رہتا ہے۔
آخری مرحلہ قبولیت (Acceptance) کا ہوتا ہے جہاں انسان اپنی موت اور خاتمے کو قبول کرتا ہے۔
دنیا میں میں کورونا وبا کے ظہور کو ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ پاکستان میں جب سے یہ بلا آئی ہے 14 مہینے ہوگئے ہیں۔ ابھی پاکستان اس کی تیسری لہر سے گزر رہا ہے لیکن ہمارے معاشرے کا اکثریتی حصہ اب بھی پہلے مرحلے یعنی ’’انکار‘‘ میں ہے۔ جن لوگوں کو براہِ راست اس وبا کا سامنا ہوا ہے جن میں ایک بڑی تعداد مذکورہ بالا چار مراحل سے گزری ہے اور خدا کے فضل و کرم سے حیات ہے، وہ اس کی شدت کو محسوس کر رہے ہیں اور دوسروں کو خبردار بھی کر رہے ہیں۔ البتہ ایک کثیر تعداد آخری مرحلے میں بھی چلی گئی ہے۔ خدا اُن کو بخشے اور جو لوگ اس سے پچھلے والے مرحلے میں ہیں، ان کو صحت یاب کرے!
ہماری کثیر تعداد اس وبا سے اب بھی انکاری ہے یا پھر دوسرے مرحلے میں ہے اور اسے ایک سازش قرار دے کر خود کو مطمئن کرتی ہے۔
یہ اکثریت اس وبا سے لین دین ؍ نمٹنے کی بجائے اس سے یا تو انکاری ہے یا پھر چوتھے مرحلے میں جاچکی ہے جہاں دل شکستگی اور مایوسی نمایاں ہے۔ کورونا ایک ایسی وبا ہے کہ اس نے معیشت سے زیادہ انسانوں کے رشتوں کو متاثر کیا ہے۔
عالمی سطح پر ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ نے اس کو چائینہ کی سازش قراردیا تھا۔ عالمی سطح پر اس وبا نے دنیا کوایک بار پھر پہلی، دوسری اور تیسری دنیاؤں میں تقسیم کردیا ہے۔ امیر ممالک میں اس کے خلاف سب سے مؤثر تدبیر ’’ویکسی نیشن‘‘ پورے زور سے جاری ہے اور امید ہے کہ اس سال ان ممالک میں پوری آبادی ویکسی نیٹ ہوجائے گی، مگر تیسری دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2025ء تک بھی شاید یہ عمل مکمل نہ ہوپائے ۔
مقامی سطح پر اس وبا نے انسانی رشتوں کو بری طرح متاثر کیا۔ سماجی سرگرمیاں عالمی طور پر بھی بند ہوگئیں اور مقامی طور پر بھی ان پر اثر پڑا۔ اس کے خلاف تدابیر میں سرِفہرست انسان کو انسان سے فاصلے پر رہنا ہے اور ناک اور منھ پر ماسک پہننا ہے ۔
جنگ، وبا اور آفت کی صورت میں جو شے ان سے بھی زیادہ وبائی صورت اختیار کرتی ہے وہ افواہیں اور سازشی نظریے ہوتی ہے۔ اس کا مظہر آپ کو ہر مقامی دیرے میں کئی مقامی دانشوروں کی طرف سے مباحث میں نمایاں نظرآئے گا۔ ہر کوئی اپنی ایک تھیوری بناکر پیش کرتا ہے اور یہ تھیوریاں اس وبا سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ دوسرے حلقوں میں اسی رفتار سے ڈیپرشن یعنی دل شکستگی پھیلتی ہے۔ یہ دونوں ردِعمل خطرناک ہیں۔ سازشی تھیوریاں پھیلانے اور دل گرفتہ ہونے کی بجائے جو تدابیر ہمارے بس میں ہیں، ان کو اپنانا چاہے۔ ماسک پہننا چاہیے، اگرچہ نوجوانوں، خواتین اور بچوں کے علاوہ دیگر دانش ور لوگ اس عمل کو بھی ٹیبو سمجھنے لگے ہیں اور ماسک پہننے والے پر کئی لوگ یوں نظریں جماتے ہیں، گویا وہ کسی اجنبی سیارے پر سے اتر آیا ہے۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔