آج کل ملک میں خصوصاً سوشل میڈیا پر اداروں یعنی پاک فوج کے حوالے سے بننے والے متوقع قانون کا چرچا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت کا ایک رکنِ اسمبلی ایسی قانون سازی کرنا چاہتا ہے کہ جس کے تحت پاک فوج کی توہین کرنا، تمسخر اڑانا یا تنقید کرنا ضابطۂ فوج داری کے تحت جرم تصور کیا جائے گا اور یہ حرکت کرنے والا باقاعدہ ملزم گردانا جائے گا۔ جس کے خلاف ضابطہ کے تحت ’’ایف آئی آر‘‘ کٹے گی اور سول عدالت میں کیس چلے گا۔ بعد چالان اور بحث کے اگر عدالت ملزم کو مجرم قرار دیتی ہے، تو اس کو جرمانے یا جیل یا دونوں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔
اب یہ قانون ہو یا نہ ہو۔ ہو تو کس حد تک ہو،کیسے ہو، کس طرح جرم ثابت ہو؟ یہ ایک دقیق اور کنفیوزڈ بحث ہے۔ آیا یہ قانون ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ لیکن اس سے پہلے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اول اس نکتہ پر بحث کی جائے کہ اس قانون کی ضرورت کیا ہے؟
اب ایک رائے تو یہ ہے کہ جب ہماری مغربی سرحدوں پر افغان میں ایک مغرب نواز حکومت ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے اندرونی حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں، یا ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا سانپ ایک بار پھر سر اٹھا سکتا ہے جب کہ دوسری طرف مشرقی سرحد کہ جہاں جن سنگھ کا ایک متعصب ہندو بطورِ وزیرِ اعظم آگیا ہے کہ جس کی گھٹی میں پاکستان سے نفرت اور جن کے منشور میں پاکستان کا خاتمہ ہے۔
تیسری طرف ایران کے حالات بھی ہمارے ساتھ روایتی نہیں رہے اور ایران و عرب باہمی اختلاف کہ جس کے درمیان پاکستان اپنے مخصوص معاشرتی حالات کی وجہ تختۂ مشق بن رہا ہے۔ سو ان حالات میں ہم کو ایک ایسی مضبوط فوج کی ضرورت ہے کہ جس کے پاس بنا کسی مذہبی و سیاسی تعصب کے عوام کا مکمل اعتماد ہو۔ عوام کی بے لوث محبت ہو۔ سو ان حالات میں ایسے قانون کی ضرورت ہے تاکہ کچھ احمق دماغ یا کچھ غیر ملکی ایجنٹ خواہ مخواہ عوام کی نظر میں فوج کی عزت و حرمت کم کرنے کی ناپاک کوشش نہ کریں۔ اور نہ ہر ایرے غیرے کو یہ جرأت ہی ہو کہ وہ پاک فوج کی ہتک کرتا پھرے اور فوج کو بدنام کرتا رہے۔
دوسری طرف کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ایک ادارے کو مقدس گائے بنانا بالکل قرینِ انصاف نہیں۔ جب ملک میں عدلیہ کے مقدس ترین ادارے، منتخب پارلیمنٹ اور مزید الیکشن کمیشن پولیس وغیرہ بارے ایسا کوئی قانون نہیں، تو محض فوج بارے ایسا قانون کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ سو اس کو بنانا سراسر بے انصافی، اظہار رائے کی آزادی کے خلاف اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
اس کے علاوہ ان عناصر کی طرف سے یہ سوالات بھی ہیں کہ آخر اس قانون کی تشریح کیسے ہوگی؟ فوج کی ہتک و مخالفت کی ایک بنا سقم تعریف کیا ہوگی؟ یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ چند الفاظ جو لکھے گئے یا ادا ہوئے وہاں لکھنے والے یا بولنے والی کی نیت کیا تھی، اس کا پس منظر کیا تھا اور اس کی حقیقت کیا تھی؟ اس واسطے اس کی مکمل تشریح کی ضرورت ہے۔ وگرنہ دوسری صورت میں یہ قانون محض سیاسی و ذاتی انتقام کا ایک مؤثر ذریعہ بن جائے گا۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سابقہ وفاقی وزیرِ قانون جناب خالد رانجھا نے باقاعدہ ٹیلی وِژن پر بیان کیا تھا کہ اس قسم کا ایک قانون ضیاء الحق کے سیاہ دور میں بھی بنایا گیا تھا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی کی بھینس بھی چوری ہو جاتی، تو وہ جب اس کا مقدمہ کسی مشکوک شخص پر درج کرواتا، تو اس قانون کو استعمال کرتا، بلکہ کچھ کو تو تفتیشی افسر رشوت لے کر خود سمجھاتا کہ مقدمہ یوں درج کرواؤ۔ یعنی درخواست یوں دی جاتی کہ جنابِ والا! کل میری بھوری بھینس چوری ہوگئی۔ مجھے فلاں پر شک ہے۔ اور جب اس بابت مَیں نے فلاں سے باز پرس کی، تو انہوں نے نہ صرف اس سے انکار کیا بلکہ میری بے عزتی کی اور ساتھ فوج کو گالی بھی دی (یعنی ایک دفعہ اضافی لگ گئی۔) اب بھیس کی چوری اس پر ثابت ہو نہ ہو، برآمدگی ہو نہ ہو، لیکن فوج کو گالی دینے والی دفعہ اس کو کافی مشکلات کا شکار کر دیتی تھی۔ سو ان عناصر کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کی ہر سطح پر مخالفت کریں گے بلکہ کچھ بار کونسلوں نے اس کے خلاف عدلیہ سے بھی رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
قطعِ نظر ان دونوں نظریات کے ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر اس قانون کو تجویز کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا غلط یا صحیح اس کی واقعی ضرورت بھی تھی یا محض چاپلوسی اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی روایت کے عین مطابق یہ شرلی چھوڑ دی گئی؟ میری نظر میں یہی سوال سنجیدہ ہے۔ میرا یہ ذاتی خیال ہے کہ ایسا کرنے والوں نے فوج سے ہمدردی بالکل نہ کی، بلکہ انہوں نے غیر ضروری طور پر فوج کو ابھی سے خواہ مخواہ متنازعہ بنا دیا۔ منطق کے مطابق ایسے ہی احمق ہم درد کسی شخص یا ادارے واسطے مفت میں مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ مثلاً جب سے اس قانون کی بازگشت سنائی دی، تب سے آپ سوشل میڈیا پر جا کر دیکھیں کہ کس طرح کچھ فوج سے وابستہ شخصیات یا کاموں کو لے کر کس طرح تمسخر بنایا جا رہا ہے۔ کس طرح طنز کے تیر چل رہے ہیں؟
یہ یاد رکھیں اگر یہ قانون بن گیا، تو پھر اس سے بھی کئی زیادہ طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جائے گا۔ آپ کچھ بھی کریں، تاریخ کو تو ریورس نہیں کرسکتے۔ ایوب کا مارشل لا، محترمہ فاطمہ جناح کی دھاندلی زدہ شکست، یحییٰ خان کی آمد، المیۂ مشرقی پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، افغان جنگ، سیاسی کارکنان کو جیل کوڑے پھانسیاں، نواز شریف کی جلاوطنی، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد کا واقعہ، جونیجو لیگ اور ق لیگ کی بنیاد، دو ریفرنڈم وردی میں صدارتی انتخابات وغیرہ کو آپ کس طرح تاریخ سے مٹا سکتے ہیں؟ جب یہ واقعات آئیں گے، تو پھر اس دور کے حکم ران اور ان کے کارنامے بھی زیرِ بحث آئیں گے۔ اس وقت کے ذمہ داران و عہدیداران کی شخصیت و فوجی عہدے بھی بحث کا موضوع بنیں گے اور تنقید و تعریف بھی ہوگی۔
پھر یہ بات بھی انسانی فطرت، قانونِ قدرت اور منطق کی بنیاد پر سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی شخص یا ادارے کی عزت بذریعۂ قانون کروائی جا سکتی ہے، نہ قائم رکھی جاسکتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں بلکہ عزت و ذلت خدا کے بعد آپ کی اخلاقی اہمیت و کردار سے وابستہ ہوتی ہے۔ عزت قوانین میں نہیں عام آدمی کے دل میں قائم ہوتی ہے۔ جب آپ کا کردار بے داغ ہوگا، آپ کی خدمات بے لوث اور نیک نیت پر مبنی ہونگیں، تو پھر آپ کی عزت و وقار کسی قانون کا محتاج نہیں ہوگا۔ آپ کی عزت خود بخود مکمل جوبن سے نافذ ہو جائے گی۔
سو اس تناظر میں ہم عسکری اداروں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ بذریعۂ آئی ایس پی آر فوری طور پر اس قانون سے خود کو دور کریں اور یہ واضح اعلان عوام کے سامنے کریں کہ ان کو نہ اس قانون سے دلچسپی ہے نہ ان کا اس سے کوئی لینا دینا ہے۔ وہ نہ اس کی حمایت ہی کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس چاپلوس اور حماقت سے بھر پور حرکت کو فوری طور پر روک دے۔ کیوں کہ اگر یہ قانون بالفرض مکمل نیک نیتی سے بھی بنایا جا رہا ہے، تو تب بھی یہ کسی صورت نافذ العمل بالکل نہیں اور اگر یہ قانون بن گیا، تو اس کے اثرات انتہائی گہرے ہوں گے، جو کہ حکومت سمیت بذاتِ خود پاک فوج واسطے منفی نتیجہ دیں گے۔ پھر اس قانون کا نام لے کر ادارے پر اور اس کے کردار پر سوال کھڑے ہو جائیں گے۔
المختصر، وزارتِ قانون اور خصوصاً وزیرِ اعظم صاحب خود اس معاملے میں دلچسپی لیں اور جو صاحب بہت جوش سے یہ حماقت کر رے ہیں ان کو روکیں۔
دوسری طرف ہم حزبِ اختلاف خاص کر طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ دینے والی پی پی اور ووٹ کو عزت دو کا دعوا کرنے والی ن لیگ سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کی مخالفت کلی کریں گے۔ اس کو منظور تو کیا کرنا بلکہ اس کو اسمبلی کے فلور تک بھی نہ آنے دیں گے۔ ویسے بھی ایسے فضول اور احمقانہ قوانین دنیا میں کہیں بھی خاص کر آزاد اور جمہوری معاشروں میں قطعاً رائج نہیں ہوسکتے۔
آخر میں عوام سے بھی اپیل ہے کہ فی الحال یہ قانون شاید قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے پاس ہے اور اسمبلی تک نہیں آیا، یعنی اس کی منظوری واسطے ابھی بہت وقت باقی ہے۔ سو ابھی سے اس آڑ میں کسی ادارے خصوصاً پاک فوج کا تمسخر اڑانے سے پرہیز کیا جائے۔ یہ مہذب اور قابلِ اعزاز حرکت بالکل نہیں۔
فیس بک اور ٹوئیٹر واسطے دوسرے موضاعات پر بہت سا مواد موجود ہے۔ آپ اس پر تفریح و لطف حاصل کر سکتے ہیں۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔