انسان جنسِ حیوان کی ایک نوع ہے۔ انسان حواس رکھتا ہے جو سارے حیوانات بھی رکھتے ہیں۔ اس کو عقل کی اساس پرامتیاز دی گئی ہے جب کہ فرشتے بھی عقل رکھتے ہیں، لیکن حیوانات میں صرف خواہشات ہیں اور فرشتوں میں صرف عقل ہے۔ لہٰذا وہاں نہ تو ان دونوں کے فطرت کے اندر دو متضاد اور متصادم قوتوں کی ہلچل ہے اور نہ ان کی کوئی ابتلا ہے۔ کیوں کہ ابتلا تو ہوتی تب ہے جب تضاد اور تصادم کی فضا موجود ہو۔ ابتلااور امتحان کی اساس پر ناکامی اور کامیابی ہوتی ہے اور اسی پر آگے جا کر مقام ومرتبہ ملتا ہے۔
اب صرف خواہشات ہوں، تو وہاں پر جذبات ہوں گے، احساسات ہوں گے اور محسوسات ومشاہدات کی حد تک علم بھی ہوگا۔ صرف عقل ہو، تو وہاں پر جذبات نہیں ہوتے، محسوسات ومشاہدات ہوتے ہیں اور ساتھ معقولات یعنی عقل کے مدرکے ہوتے ہیں لیکن وہ بھی فطری ہوتے ہیں۔ ان میں پھیلاؤ آتا ہے، وسعت آتی ہے اور نہ اس میں استنباطات، استخراجات، اجتہادات اور ایجادات کا گزر ہی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ نئے راستے مشکلات سے کھلتے ہیں کہ رکاوٹ پیش آئے، تو راستہ نکالا جائے اور یہ مشکلات مقابل قوت کی طرف سے آتی ہیں ۔
اب فرشتوں میں مقابل قوت یعنی شہوات ہیں نہیں، تبھی تو فرشتوں نے ’’لا علم لنا الا ما علمتنا‘‘کہا کہ ’’ہمارا علم تو بس وہی ہے جو آپ نے ہمیں دیا ہے‘‘ یعنی اس کا کوئی پھیلاؤ اور استنباط نہیں ۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اسماء الاشیاء اور ان کی حکمت واستعمال بتادیا، تو اللہ نے فرمایا:’’الم اقل لک انی اعلم غیب السموات والارض واعلم ماتبدون وما کنتم تکتمون۔‘‘ جب کہ اس سے پہلے ان سے فرمایا تھا: ’’انی اعلم ما لاتعلمون!‘‘ یعنی ’’مَیں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
اب ان انسانوں کو علم اور تعلیم کی ضرورت تھی کہ ان میں سیکھنے اور سکھانے اور علم کے پھیلنے اور ایجاد واجتہاد کی صلاحیت تھی، لیکن ان کے دو رُخ ہیں۔
٭ایک مادی۔
٭ دوسرا روحانی۔
یا
٭ ایک دنیوی۔
٭ دوسرا دینی۔
یا
٭ ایک دنیوی۔
٭ دوسرا اُخروی۔
یا
٭ ایک ان کا وہ پہلو جس کی اساس پر یہ خلق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔
٭ دوسرا وہ پہلو جس کی اساس پر خالق سے تعلق رکھتے ہیں ۔
مادی اور طبیعی علوم کا حصول انسان کی اپنی جستجو اور اپنی ریسرچ سے ہے جب کہ روحانی علوم کا منبع وحیِ الٰہی ہے جس کا حاصل ہے طبیعی دنیا میں ایسی زندگی گزارنا جس طرح اللہ کا حکم ہے۔
یعنی طبیعیات یہ معلوم کرتا ہے کہ کائنات سے ہم کیا اور کیسے فائدہ لے سکتے ہیں؟ تاکہ زندگی آسان بنے جب کہ روحانیات میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ طبیعی زندگی کس طرح گزاری جائے، تاکہ دنیا میں اطمینان اور خوشی اور آخرت میں نجات اور قربِ الٰہی ملے۔
سو یہاں ہم طبیعی علوم کی بات کرتے ہیں جن کی اساس پر اقوام ترقی کرتی ہیں اور قائدانہ مقام حاصل کرتی ہیں۔
٭ اب طبیعی علوم کیسے ہوں؟
٭ انہیں کیسے حاصل کیا جائے؟
تو ظاہر بات ہے اس کے لیے نصاب اورسلیبس، نظام اور طریقۂ تعلیم وتدریس سیکھنے کا طریقہ وعمل اور پھر طریقہ امتحان درکار ہوگا۔یہ چار اساسی امور ہیں۔
اب جہاں تک نصاب اورسلیبس کا تعلق ہے، تو وہ تو وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے کہ فطرت ارتقائی ہے۔ زندگی ارتقا پذیر ہے۔ آگے چلتی رہتی ہے۔ سو اس کے تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں اور ان تقاضوں کے پوراکرنے کے طریقے ڈھونڈنا ہی نصاب اورسلیبس کی اساس ہے، تاکہ وقت کے ساتھ چلا جاسکے۔ ورنہ وقت اور دیگر اقوام بہت آگے چلی جائیں گی اور ہم بہت پیچھے ڈولتے رہیں گے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی رجحانات بدلتے رہتے ہیں اور تعلیم ان چار میدانوں کے تقاضوں کو ایڈریس کرنے کانام ہے۔ لہٰذا اس کا نصاب اورسلیبس اور ساتھ نظام وطریقۂ تعلیم و تدریس بھی بدلتا رہے گا۔ اس طرح سیکھنے کے طور طریقے اور پھر نظامِ امتحان بھی تبدیل ہوتا جائے گا۔
تیسری دنیا اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہرمیدان میں پیچھے جارہی ہے۔ کیوں کہ آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا بن گئی ہے۔ اس لیے کہ معیشت کا سارا دار و مدار کسی ملک کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی پر ہے۔ پھر سیاسیات، معیشت کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے اور معیشت ہی کا معاشرت اور ثقافت پر اثر پڑتا رہتاہے۔
بالفاظ دیگر سارے میدان ہائے حیات معیشت سے متاثر اور معیشت سائنس اور ٹیکنالوجی پر موقوف ہے۔تاخیر کا یہ احساس کسی نہ کسی صورت تو ان اقوام کو وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ اس کے لیے بعض اوقات وہ کچھ سوچتے بھی ہیں لیکن معاشرہ کی اجتماعی حالت مفلوک الحال ہو، تو ذہن وفکر بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، تو سوچ تو لیتے ہیں لیکن کوئی راستہ نہیں نکل آتا، جو بھی راستہ وہ نکال لاتے ہیں بالعاقبت وہ ایک ڈیڈ اینڈ (Dead End)پر جا پہنچتا ہے، تو پھر واپس آکر پھر سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ کبھی وہ اداروں کو ’’نیشنلائزڈ‘‘ کرجاتے ہیں اور کبھی ’’پرائیوٹائزڈ‘‘ کردیتے ہیں۔ حکومتی نظام مستحکم نہ ہو اور ادارے نیشنلائزڈ کیے جائیں، تو انجامِ کاران اداروں کا دیوالیہ ہونا ہے اور پرائیوٹائزڈ کریں، تو کارپوریٹ کلچر کی اساس پر اس خاص طبقہ یعنی صنعت کاروں کاتو فائدہ ہی فائدہ ہے، لیکن ملک و قوم اور عوام کاکوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کہ ماحول استحصال کا ہے۔ لہٰذا ایسے ماحول میں فائدہ کس بات میں ہے، اپنا سوچنے میں یا کہ ملک وقوم اور عوام کا سوچنے میں؟
آج کا دور جو سیکولر ازم اور کیپٹل ازم کے ساتھ اب ’’نیولبرل ازم‘‘ کا دور ہے اور یہ ’’نیو لبرل ازم‘‘ سیکولر ازم اور کیپٹل ازم کی ترکیب سے نکلی ہوئی آگے کی ایک چیز ہے جس کا مرکزی نکتہ ہے’’ آزادی اور مکمل آزادی۔‘‘ اس کے دو بچے ہیں:
٭ ایک زیادہ سے زیادہ منافع کمانا۔
٭ دوسرا اخلاق واقدار کا نہ ہونا یا ان کا دخیل نہ ہونا۔
ایسے میں دیگر صنعتوں کی طرح تعلیم بھی ایک صنعت بن چکی ہے جس کو ایجوکیشن انڈسٹری کہتے ہیں۔ اورانڈسٹری کا توخمیر ہی ہے پراڈکٹ۔ ایسی پراڈکٹ جس کی مارکیٹنگ اچھی ہو، تاکہ زیادہ نکلے اور زیادہ منافع ہاتھ آئے۔ایسے میں پراڈکٹ کی کوالٹی کی بات ہوتی ہے اور کوالٹی پر اڈکٹویٹی کے ساتھ ساتھ "efficiency” یعنی فعالیت تک محدود ہے۔ ایسے میں ظاہریت کو زیادہ دخل ہوتا ہے، تاکہ اسے ڈیمانسٹریٹ کیا جاسکے کہ’’ اس ادارے کا نتیجہ اتنے فیصد آیا اور اس کے گریجویٹس کو یہ یہ جاب مل گیا۔‘‘ یعنی کوالٹی بالعاقبت کوانٹیٹی پر چلی گئی۔
اب جو ماحول ہے اس میں فلاں ادارے کا یہ رزلٹ کیسے آیا؟ ہال کتنے میں ملا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس کا کوئی پتا نہیں کرتا، تو ایسے میں کوالٹی کیا ہوگی؟ یعنی تعلیمی ادارے بھی مشینیں ہیں اور جس طرح صنعتوں میں ملازمین کی ذمہ داری ہوتی ہے یہاں بھی ویسے ہی ہوتا ہے۔
ان پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ گستاخی معاف لیکن وہ روبوٹس ہوتے ہیں جو انتظامیہ کے اشاروں پر چلتے رہتے ہیں۔ان کا اپنے حرکات وسکنات اور سوچ پر اختیار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ان کی "say”نہیں ہوتی، نہ انتظامیہ ان سے کبھی پوچھنے کی زحمت کرتی ہے۔ ایسے میں اساتذہ خیالات اور جذبات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ ان کے لیے ٹیچنگ میں کوئی "Charm” یا شوق نہیں ہوتا، بلکہ ان کو جو ڈیوٹی دی گئی وہ پوری کردی اور وہ بھی اگر بددلی نہیں، تو یقینا بے دلی سے۔ اب یہ بے دلی سے پڑھاتا رہے، تو طالب علم کیا سیکھے؟ اس کا انفعال کیسے بیدار ہو کہ یہاں سے فعلیت ہی نہیں، یوں ان میں اعتماد بھی ختم ہوجاتا ہے۔ پھر طالب علموں کو بھی رٹا پر لگادیا جاتا ہے، تاکہ وہ بھی روبوٹ بنیں اور جو یاد کیا، وہ امتحانی پرچہ پر نقش کریں۔ سو اساتذہ غیر فعال ہوجاتے ہیں کہ طالب علم ایسی تعلیم حاصل کرے کہ اسے روزگار ملے اور بس۔ سو اساتذہ بھی روبوٹس اور طالب علم بھی روبوٹس۔ اب روبوٹس میں تو جذبات واحساسات نہیں ہوتے۔ یوں ہم ایک روبوٹک معاشرہ بنا رہے ہیں۔
ایسے میں ایک ہی قسم کی ذہنیت پیدا ہوتی ہے کمانا۔ حکومتوں میں بیٹھے طاقت ور لوگوں کے لیے بھی ایسے روبوٹس موزوں ہوتے ہیں، تاکہ اس طاقت ور طبقہ کے پیدا کردہ سماجی امتیازات پر کوئی سوال ہی نہ کرے، جب کہ ان کے بچے یا تو باہر کے سکولوں میں پڑھتے ہیں یا پھر ملک کے اندر وہ ادارے جو باہر کے نظام اورنصاب کی اساس پر بنے ہیں۔ انہوں نے عام لوگوں کے لیے سرکاری سکول یا پرائیوٹ سکول سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ روبوٹک تعلیم اور ’’نیو لبرل ازم‘‘ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔
٭ تعلیم کیسے ہونی چاہیے؟
تعلیم ایسی ہونی چاہیے جس میں تحقیق ہو، تنقید ہو، تخلیق ہو، تو آگے کی طرف سفر ہوگا۔ اب جب ٹیچر کی "Say” نہیں، تو اس کی کلاس میں طالب علم کی کیا "Say” ہوگی؟ بس وہ سنے، یاد کرے اور امتحان دے، تاکہ ڈگری لے اور اسے روزگار ملے۔چلتی کا نام گاڑی ہے۔ اس طرح علم نہیں حاصل ہوتا، تعلیم حاصل ہوتی ہے اور تعلیم نام ہے ڈگری کایا سند کا۔ ڈگری اور سند سے نہ تو علم حاصل ہوتا ہے، نہ عقل کو جلا ملتی ہے۔ تبھی تو ہم کہتے ہیں کہ ’’مدرسہ سند دیتا ہے۔ یونیورسٹی ڈگری دیتی ہے، لیکن عقل خدا دیتا ہے ۔‘‘
اب سند یا ڈگری ہو اور عقل کو جلا نہ ملی ہو، تو یہ تو دیوانہ اور ناسمجھ کو پستول تھمانا ہے یا چھرا تھمانا ہے۔ پھر دیوانہ خود کو نقصان دے گا یا اوروں کو۔ اب ماحول ہی نقصان دینے کا بنایا ہو، ایسے میں ملک وقوم آباد کیسے ہوں گے؟
سو پہلے بیانیہ بنانا ہے اور یہ بنتا ہے نصاب وسلیبس، نظامِ تعلیم وتدریس، سیکھنے کے طریقہ وعمل اور نظام امتحان سے۔ بیانیہ کے بغیر زندگی بے معنی ہے اور معنی کی عدم موجودگی میں زندگی بے مقصد اور مقصد کے بغیر سکولوں میں جانا تو نظر بندی ہے۔ زندگی کو بامقصد و بامعنی بنانا بڑی قیمت چاہتی ہے۔ البتہ زندگی کا مقصد ہاتھ آئے، تو چہرے پر سکون اور تمکنت ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس سے زندگی باسلیقہ ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ مقصد یہ تو نہیں کہ روزگار مل گیا۔ کیوں کہ آپ انسان ہیں، روبوٹس اور مشین نہیں۔ اصل انسان تو اقدار واخلاق سے بنتا ہے۔یہ تعلیم تو اقدار واخلاق کا بریک ڈاؤن یا ٹرانسمیشن لائنز کا ٹرپ ہونا ہے۔ اصل تعلیم سے بینائی آتی ہے اور بینائی نام ہے دانائی اور استدلال کا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نیچے نہیں بیٹھ سکتے اور جلدی سے بھی پیشتر اونچائی پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم معقولیت کے بغیر مقبولیت چاہتے ہیں اور ایسے میں ہم سچائی، دیانت اور اخلاقیات کا خون کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا سب کچھ کائنات کے کمپیوٹر پر چلا جاتا ہے اور وہاں سے پھر یہ "Reflect” بھی کرتا ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہم بقولِ منیر نیازی
یہ میرے شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا پھر کیا
کہ منزل تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
بلکہ ہمارا مسئلہ تو اس سے بھی گھمبیر ہے۔ ہم تو یہ نہیں کہ ہمارا منزل ہم سے آگے تیز تیز جارہا ہے اور ہم اس کے پیچھے آہستہ آہستہ، بلکہ ہم تو منزل سے ریورس سمت تیز تیز جارہے ہیں اور ہر لمحے ہمارا اور منزل کا فاصلہ افزوں ہوتا جارہا ہے ۔
ہمارے لیڈرانِ کرام بھی مقبول فیصلوں میں لگے رہتے ہیں، تاکہ وقتی طور پر اس کی واہ واہ ہوجائے۔ معقول فیصلے نہیں کرتے کہ ایک تو وہ لوگوں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوتے۔ دوسرا یہ کہ اس کا نتیجہ دیر سے آتا ہے، تو تب تک تو اس لیڈر کا ٹائم ختم ہوا ہوتا ہے اور دوسرے کو اس کا کریڈٹ ملتا ہے۔ لیڈر کی شناخت یہ ہے کہ اگر وہ سیاست دان ہو، تو وہ معقول فیصلے کرے، صرف مقبول نہیں اور وہ اگلے الیکشن کا نہیں اگلی نسلوں کا سوچے۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔