کورونا کی تیسری لہر سے شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی بجائے اس وبا سے بچنے کا شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیوں کہ جو جتنا اس مرض کو جان گیا، اس کے بچنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
قارئین، ہمارا ملک چین کا پڑوسی اور قریبی دوست ہے جس نے کورونا کو سب سے پہلے کنٹرول کیا۔ اگر ہم چاہتے، تو اس کی دوستی اور تعاون سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو سب سے پہلے کورونا سے پاک کرسکتے تھے، لیکن عمران خان کی حکومت نے کورونا کے معاملے میں بھی وہی کیا جو بی آر ٹی پشاور کے معاملے میں کرتی رہی۔
این سی او سی، اسمارٹ لاک ڈاؤن اور اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کرتی ہے لیکن اگلے روز وزیراعظم جلسہ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ فون کال ملائیں، تو قوم کو حکومت کی طرف سے نصیحت کی جاتی ہے کہ ماسک پہنیں اور سماجی فاصلہ رکھیں، لیکن وزیراعظم اور وزرا ٹی وی اسکرینوں پر ماسک کے بغیر ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
کورونا کا سب سے مؤثر سدباب تو ویکسین ہے لیکن دنیا بھر کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ ویکسین سے بھی سو فی صد بچاؤ ممکن نہیں، بلکہ 70سے 90 فیصد تک بچت کا امکان ہے۔
ہمارے ملک میں ویکسین عام آدمی تک پہنچنے میں تو شاید کئی ماہ لگیں، تب تک ہمیں خود اپنا بچاؤ کرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کورونا ایس اوپیز پر بالکل ہی عمل نہیں ہو رہا۔ عوامی مقامات پر ماسک پہننے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ سب سے پہلے تو ہر ایک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کورونا ہمیں کسی بھی جگہ پر گھیر سکتا ہے۔ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ابتدا میں ماہرین کا خیال تھا کہ جسے ایک بار کورونا ہوجائے، اسے دوبارہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے جسم میں اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں۔ اب یہ تاثرغلط ہوچکا ہے۔ کورونا دو سری بار ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی اینٹی باڈیز کے زعم میں نہ رہیں۔
کورونا وائرس انسانی جسم سے قوتِ مدافعت ختم کرکے پھیپھڑوں کومتاثر کرتا ہے۔ کوروناکا عام ٹیسٹ’’پی سی آر‘‘ہے، مگر بہت سے کیسوں میں یہ نیگیٹو آ رہا ہے۔ اس لیے صرف پی سی آر نیگیٹو آنے پر ریلیکس ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔اگر علامات رہیں، تو دیگرٹیسٹ کرواناضروری ہیں۔
ان کے ساتھ ایک چیسٹ ایکسرے بھی ضروری ہے، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ پھیپھڑے تو متاثر نہیں ہوئے۔ کوئی بھی چیسٹ کا ڈاکٹر یہ ایکسرے دیکھ کر تشخیص کرسکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ معاملہ سنگین ہے، تو پھر ڈاکٹرز عام طور سے سٹی سکین (HRCT) کا کہتے ہیں۔ اس سے بہت بہتر اندازہ ہوجاتا ہے۔
بہت بار مریض بظاہر سانس ٹھیک لے رہا ہوتا ہے، مگر آکسیجن سیچویشن ڈراپ ہونے لگتی ہے۔ مریض ایسے میں ہسپتال جانے اور آکسیجن لگوانے میں مزاحمت کرتے ہیں۔ انہیں سمجھانا چاہیے۔ کیوں کہ آکسیجن تیزی سے ڈراپ ہونے پر اچانک ہی بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔
آکسیجن سیچوریشن کم ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پھیپھڑے کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور وہ ٹھیک کام نہیں کر رہے۔ اگر پھیپھڑے متاثر ہوچکے ہوں، تب مریض کو اچھی اور ہیوی ڈوزادویہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسے میں قہوہ جات، بھاپ وغیرہ روٹین میں کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔
ہمارے لیے اب واحد آپشن یہ ہے کہ اپنے آپ کو بہترین طبی حالت میں فٹ رکھیں۔ بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے مریضوں کا کورونا کے حساب سے رسک فیکٹر زیادہ ہے۔ یہ مریض اپنی ادویہ کو باقاعدگی سے استعمال کریں اور کنٹرول رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط کریں۔
شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض اگلے چند ماہ کے لیے اپنی خوش خوراکی اور بدپرہیزی کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔ سادہ کھانا کھائیں۔ مرغن کھانوں کے بجائے سبزیاں لیں۔ ساتھ سلاد کا استعمال کریں۔ ممکن ہو، تو گندم کے آٹے کے ساتھ جو کا آٹا ملا کر روٹی کھائیں۔ اس میں فائبر زیادہ ہے اور یہ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر دونوں کے لیے مفید ہے۔
صبح یا شام میں کچھ وقت، کم از کم نصف گھنٹا واک کے لیے نکالیں۔
کورونا بیماری کے دوران میں قوتِ مدافعت سب سے اہم ہے، اسے مضبوط رکھیں۔
وٹامن سی، وٹامن ڈی اور زنک کا استعمال اس کے لیے مفید ہے۔ ان کے سپلیمنٹ عام ملتے ہیں۔ وٹامن سی کی چوسنے والی گولیاں ملتی ہیں جب کہ وٹامن ڈی کی چوسنے والی گولیوں کے ساتھ پورے مہینے کی ہیوی ڈوز ایک گولی کے ذریعے بھی لی جا سکتی ہے۔
اُبلا ہوا انڈا فائدہ مند ہے۔ اس کی سفیدی میں عمدہ پروٹین ہے۔
دالوں اور لوبیا میں بھی پروٹین ہے۔
ادرک، پودینے، لونگ اور دارچینی کا قہوہ بھی دن میں ایک دو بار لے سکتے ہیں۔
اگر صبح و شام بھاپ کی عادت ڈال سکیں، تو فائدہ ہوگا۔
کوئی اور احتیاط کرے نہ کرے، آپ باہر نکلتے وقت ماسک پہن کر خطرے کو خاصا کم کر سکتے ہیں۔
قارئین، عام میل جول میں احتیاط برتتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ کر احترام کے تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ وقت کے لیے بغل گیر ہونے یا مصافحہ کرنے سے اجتناب کیجیے۔ کیوں کہ احتیاط ہی زندگی ہے۔
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔