دیکھیں لالا، ہمارے باپ دادا پتھروں پر چلتے تھے۔ ان کے گاؤں تک راستے پتھروں کے تھے۔ وہ دریا رسیوں سے پار کرتے تھے، جن کو غالباً یان کی رسیوں سے بنایا جاتا تھا۔
لالا کیا کہوں! ہمارے والدین بھی ان ہی پتھروں پہ چلتے رہے۔ ہمارا بچپن بھی ان پہ چل کر گزرگیا۔ ہمارے باپ دادا چشموں کا تازہ پانی پیتے تھے۔ ہر گاؤں میں جو پہاڑی ندی گرتی تھی، وہ صاف و شفاف ہوتی تھی۔ گاؤں میں کوئی دکان نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہمیں ’’شا بابا‘‘ جیسے پاپڑ نہیں ملتے تھے۔ گھر میں ماں دن کے دو کھانوں میں سے ایک میں دودھ، دہی، مکھن اور گھی دیتی تھی۔ ہم تیکھا کھانے کو ترستے تھے۔ صبح و شام گائے کے دودھ کی چائے پیتے تھے ۔
لالا، جب بازار سے سالن کے لیے کوئی چیز نہیں لاپاتے، تو ماں سالن کے لیے دودھ اور آٹے کا دلیہ بناتیں جس کو ’’مھاگو‘‘ کہا جاتا۔ موسم سرما کے لیے ’’بھیاش‘‘ کیا جاتا یعنی کھانے کی اشیا کو ذخیرہ کیا جاتا، جن میں شفتل اور شئین کا سوکھا ساگ ضرور ہوا کرتا تھا۔ جب ٹماٹر آیا، تو اس کو بھی سکھایا جاتا کہ سرما میں استعمال کیا جاسکے۔ گوشت کے لیے گھر ہی میں پالے ہوئے بکرے یا بیل کو ذبح کرکے اس کا گوشت بھی سکھایا جاتا اور سردیوں میں کھایا جاتا تھا۔ مرغی کا گوشت کھانا عیاشی ہوتا تھا۔ اس وقت بھی ہم نوجوان کوئٹہ، حیدرآباد، چکوال میں کوئلہ کی کانوں میں مزدوری کرتے۔ کئی نوجوان داریل، تانگیر، ہوڈور و تھور نالوں اور کوہستان میں ٹمبر کی مزدوری کرتے اور اکثر و بیشتر پترُو کھینچتے۔ اُس وقت بھی وہ سکول نہ جاپاتے یا کچھ جماعتیں پڑھ کر سکول چھوڑ کر مزدوری کرتے تھے ۔
ہماری مائیں ہمیں بچپن میں ڈائپر (پیمپرز) نہیں پہناتیں اور ہم شیرخواروں کو کپڑے میں ایک رسی کی مدد سے باندھ دیتی تھیں، تاکہ ہم صحت مند اور توانا رہیں۔ اس کپڑے کو ’’گھنین‘‘ کہتے تھے۔ جب کوئی جوان اپنی طاقت کا رعب دوسروں پہ ڈالنا چاہتا، تو کہتا کہ میں پکی گھنین کا باندھا ہوا ہوں۔ اس وقت نالے، گلیاں اور کوچے پیپمرز نامی شے سے بھرے نہیں ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں دل کے امراض، سرطان، معدے کی سخت بیماریاں، ذیابیطس (شوگر) اور بلڈ پریشر جیسی بیماریاں خال خال ہوتی تھیں۔
لالا، پھر ہم نے ترقی کی۔ پہلے راستے پختہ ہوگئے اور سیمنٹ کی سیڑھیاں بنائی گئیں۔ ووٹوں کا سارا کھیل اس کے گرد گھومتا تھا۔ اس کے بعد گاؤں گاؤں کچی سڑکوں کا رواج آیا۔ ساتھ پلاسٹک پائپ بھی آنے لگے۔ پھر ووٹوں کا سارا کھیل گاؤں کی سڑک اور پائپ کے ساتھ نتھی ہوگیا۔ اسی ترقی کے ساتھ گاؤں گاؤں ’’شا بابا‘‘ اور دوسرے پاپڑ آگئے۔ بازاروں میں فارمی مرغی آگئی اور یوں ملک پیک اور ’’چائکہ‘‘ جیسی چیزیں آنے لگیں۔ گھی کے نام پر عجیب عجیب نمونے آگئے۔ یوں تازہ اور سوکھا ساگ، دودھ، دہی، مکھن اور گھر کے جانور کے گوشت کی جگہ ان چیزوں نے لے لی۔ گاؤں میں سڑکیں آگئیں اور ان کے ساتھ توند بھی نکل آئے۔ دل کی بیماریاں، سرطان، معدے کی بے شمار بیماریاں، ذیابیطس، بلڈ پریشر ہمارے ان پہاڑی علاقوں میں بھی پھیل گئیں۔ گاؤں کے چشمے کو ہر گھر سے پائپ لگ گیا۔ گاؤں کی ندیاں پیمپر، پلاسٹک اور انسانی فضلے سے بھر گئیں۔ ہم جہاں بچپن میں نہاتے تھے، اب وہ ندی گٹر میں تبدیل ہوگئی، ویسے ایک منصف نے پورے پاکستان کو گٹر کہا ہے۔
اب ووٹوں کا کھیل ایکسکویٹر جسے عرفِ عام میں ’’شیول‘‘ کہتے ہیں، میں تبدیل ہوچکا ہے۔ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد تگڑا امیدوار یا ممبر اسمبلی وہ ہے جو گاؤں گاؤں شیول بھیج سکے اور یہ پہاڑ توڑ کر جنگل تک راستہ بنا سکے ۔
’’تم کیا بکتے ہو؟ یہ ترقی ہے؟‘‘ لالا پھٹ پڑے۔
جی، جی لالا! اسے ترقی ہی کہا جاتا ہے۔ مانتا ہوں کہ ان چیزوں کو سہولیات کہتے ہیں لیکن لالا، کیا آپ نے غور کیا ہے کہ اس پوری ترقی میں ایک اہم شے کو نظر انداز کیا گیا۔ لالا، بے شک ہمارے راستے کھل گئے، مرغی کا گوشت، چائکہ اور ملک پیک ہر گھر پہنچ گیا لیکن لالا، تمہیں نہیں لگتا کہ ہمارے اردگرد سیمنٹ، سریا، شیول کے زِنداں کھڑے کردیے گئے اور کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اب بھی ہمارے نوجوان کوئلہ کی کانوں، سیالکوٹ اور کراچی کے کارخانوں میں وہی مزدوری کرتے ہیں جو ہم یا ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ لالا، اس پوری ترقی میں ایک اہم شے نظرانداز کی گئی۔
’’پھر کیا نظر انداز کی گئی؟‘‘ لالا سر کھجاتے ہوئے بولے ۔
تعلیم، لالا! کیا ہمارے ان علاقوں میں آپ کو مناسب تعداد میں سکول نظر آتے ہیں؟ اور اگر کہیں کوئی سکول ہے، تو وہاں اساتذہ موجود ہیں؟ لالا، لڑکیوں کے پرائمری سکول، جنرل مڈل اور ہائی سکول میں اساتذہ موجود نہیں، یا پھر ان کی تعداد کم ہے۔ مگر کیا کریں لالا، یہ کسی کی ترجیح ہی نہیں۔ یہ تعلیم مناسب اور معیاری نہیں، مگر ہمارے بچوں کو تو یہ بھی میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اب مڈل، ہائی یا ہائیر سیکنڈری سکولوں کے لیے مقامی طور پر اساتذہ دستیاب نہیں۔ ہمارے ہاں ہر منصوبے میں باہر سے لوگوں کو بلاکر بھرتی کیا جاتا ہے۔
’’رُکو بھئی، آپ کو پتا نہیں کہ اس سیاحتی علاقے میں سیاحت کو فروغ دیا جارہا ہے۔‘‘ لالا کہنے لگے۔
جی، لالا! معلوم ہے۔ مگر اس سے کیا ترقی آئے گی؟ ہمارے لوگ اپنی زمینیں شہروں کے بڑے بڑے امیر لوگوں اور خفیہ مخلوق کو بیچ کر اور نقدی کھا کر پھر یہاں سے نقلِ مکانی ہی کریں گے۔ یہاں جتنی بھی سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے شہری بابو اور افسر شاہی اور دیگر امیر لوگوں کے لیے دیا جارہا ہے۔ اگر واقعی میں ان کا مقصود یہاں کے مقامی لوگوں کی معاشی ترقی ہوتا، تو گلی باغ میں سیاحت والے کالج کو بحال کرتے اور یہاں اس علاقے سے نوجوانوں کو سیاحت کے چلانے میں تربیت دی جاتی۔ اگر واقعی اس سیاحت سے مقامی لوگوں کی ترقی مقصود ہوتی، تو یہاں کے لوگوں کو اس اور اس سے متعلق شعبوں میں تعلیم دی جاتی۔
لالا، ہم زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں؟ بس زمین بیچ دیں گے۔ جو ہم میں سے زیادہ ہوشیار ہوگا۔ وہ ایک ٹیکسی خریدے گا اور کچھ پیسے کمائے گا۔ لوگ اسی طرح ہمیں کُلہڑ، شاڑھے اور جٹ جاہل کہتے رہیں گے۔ ہمارے نوجوان زیادہ سے زیادہ یہی کریں گے کہ شہر سے آئے ہوئے کسی بابو، افسر، میڈیا پرسن، سوشل میڈیا انفلونسر اور سیاست دان کے ساتھ سیلفی بنا کر اپنے ساتھیوں پر دھاک بٹھائیں گے کہ دیکھو، میرا فلاں افسر، سیلبرٹی اور سیاست دان سے تعلق ہے !
’’تو کیا کیا جائے؟‘‘ لالا پوچھنے لگے۔
رہنے دیں لالا، مَیں پاگل ہوچکا ہوں، تم بھی پاگل ہوجاؤگے۔ خاموش رہ، بات نہ کر۔ بہت نازک مزاج ہیں یہ اندورنی و بیرونی نوآبادیات میں پھنسے لوگ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان کو اس نوآبادیاتی تسلط میں رہنے کا نشہ سا ہوگیا ہے۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔