کسی دانا شخص نے کہا ہے کہ ’’کسی ثقافت کو تباہ کرنے کے لیے آپ کو وہاں کی کتابوں کو جلانے کی ضرورت نہیں۔ فقط اس ثقافت کے لوگوں کو کسی نہ کسی طرح پڑھنے سے روک لو۔‘‘
ایک زمانہ تھا جب نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے فارغ اوقات میں گھر کے کسی کونے میں ناول، افسانے اور دیگر غیر نصابی کتب یا رسائل پڑھتی تھیں۔بعض بڑے چوں کہ اس کو اوباشی سمجھتے تھے، اس لیے وہ اس کے حق میں نہیں ہوتے تھے اور اپنے چھوٹوں کو صرف سنجیدہ قسم کی درسی یا مذہبی کتابوں تک محدود رکھنے پر بضد ہوتے تھے۔ اگر کتاب میں عشق و محبت کا عنصر موجود ہوتا، تو پھر معاملہ مزید بگڑ جاتا۔ ایسے میں جب بندہ تجسس سے بھری کہانی کے کسی دلچسپ موڑ پر ہوتا اور یکایک دروازے سے کوئی نمودار ہوتا، تو بچارا پڑھنے والا ترنت حرکت میں آتا اور کسی نہ کسی طرح اپنے سامانِ عیش کو چھپا لیتا۔ کبھی تکیے کے نیچے کتاب چھپا لی، تو کبھی موٹی سی نصابی یا مذہبی کتاب کے اندر رکھ لی۔ کبھی دامن کے نیچے رکھ لی، تو کبھی اپنی چادر کا سہارا لیا۔
یہ بالکل ایسا ہی تھا، جیسے آج کل کوئی کسی بڑے کے ڈر کی وجہ سے منشیات چھپا رہا ہو۔
اگر گلو خلاصی ہوجاتی، تو وارے نیارے ہوجاتے۔ ورنہ اگر رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جاتا، تو بڑی شامت آتی۔ ان سب پابندیوں کے باجود ذوق و شوق اتنا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اپنی تشنگی مٹانے کے لیے سامان کرلیا جاتا تھا۔
دوستوں میں اگر کسی کے پاس نئی کتاب آتی، تو باقی دوست شدت سے منتظر ہوتے کہ کب کتاب فارغ ہو اور وہ بھی اس سے محظوظ ہوں۔ یاروں سے ملاقات ہوتی، تو کتابوں کا ذکر ضرور چڑھتا۔
ایک دور وہ تھا اور ایک یہ ہے جس میں بغیر کسی پابندی کے، بے شمار کتب کے ہوتے ہوئے بھی نوجوان نسل کتابوں کی مسحور کن دنیا سے دور ہوتی جارہی ہے۔ آج کے بچے اور نوجوان جوق در جوق سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز کی طرف آرہے ہیں۔روز اچھا خاصا وقت بے مقصد اسکرولنگ میں گزر جاتا ہے۔ میڈیا میں بھی اصل دلچسپی صرف "Soft media” میں ہوتی ہے۔ کسی کی تحریر چار پانچ سطور سے زیادہ ہوجائے، تو نظراِ التفات نہیں فرماتے ۔
اب لائبریری کی جگہ نیٹ کیفے اور کلبوں نے لے لی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ مذہب، فلسفہ، تاریخ، سائنس جیسے سنجیدہ قسم کے موضوعات پر مبنی غیر نصابی کتب تو دور کی بات، آج کا طالب علم پطرس بخاری، ابنِ انشا، شفیق الرحمان اور مشتاق احمد یوسفی کو بھی پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔
غضب کی انتہا تو یہ ہے کہ اگر کسی کو منٹو بھی پیش کیا جائے، تو ایسا منھ بنا لیتا ہے جیسے بوسیدہ اور سڑن زدہ دال پیش کی ہو۔ یہاں جونؔ ایلیا صاحب کا ذکر بے جا نہ ہوگا:
ہیں ظلمتوں کی مربی طبیعتیں ان کی
کبھی یہ روشنیِ طبع کو نہیں مانے
ہے روشنی کا انہیں ایک ہی نظارہ پسند
کہ جشنِ فتح منے اور جلیں کتب خانے
میں فیس بک پر بہت ساری ایسی ملکی اور غیر ملکی محفلوں (Groups)کا رکن ہوں جو کتابوں سے منسوب ہیں۔ جہاں تک دیسی محفلوں کا تعلق ہے، تو ان میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسی ہوتی ہے جس میں گنے چنے افراد سنجیدہ قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ باقی لوگ موضوع سے ہٹ کر یا تو صنفِ نازک سے متعلق اپنی ہمدردیاں جتاتے ہیں اور یا ’’کمنٹ‘‘ میں پانچ لکھ کر جادو ہوجانے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس جو غیر ملکی محفلیں کتابوں یا پڑھائی سے متعلق بنی ہوتی ہیں، ان میں تقریباً ساری باتیں اپنے موضوع ہی کے مطابق ہوتی ہیں۔ ارکان میں صرف عام قاری نہیں ہوتے بلکہ بے شمار ادیب بھی مل جاتے ہیں۔ یہ محفلیں عمومًا یورپی لوگوں نے بنائی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھنے والے اور سب سے بڑی لائبریریاں بھی ان ہی یورپی ممالک میں ہیں۔ اسی لیے تو ستاروں پہ کمند ڈالے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں پہلے تو پڑھنے والے اور لائبریریاں کم یاب ہیں اور اگر یہ دونوں معجزاتی طور پر ایک ساتھ موجود ہوں بھی، تو پھر لائبریریوں کا نظام اور اوقات نامہ اتنا ناقص ہوتا ہے کہ کوئی وہاں جانا گوارا نہیں کرتا۔ مثلاً کتنی زبردست لائبریری ہے پنجاب یونیورسٹی کی لیکن ایسی پھرت کے ساتھ رات نو بجے سے پہلے پہلے بند کر دی جاتی ہے، جیسے کتابوں کے سونے کا وقت ہورہا ہو۔
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
احباب، مہینے میں ایک دو کتابیں ضرور خرید لیا کریں۔ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ کتب بینی کی رہی سہی یادیں کتابوں سے بھی مٹ جائیں گی۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔