قارئین کرام! ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ دوست احباب تھانہ سے ’’فرسٹ انوسٹی گیشن رپورٹ‘‘ (ایف آئی آر) کی کاپی ہاتھ میں لیے دفتر وارد ہوتے ہیں۔ اسے میز پر رکھ کر لگائی گئی دفعات بارے پوچھتے ہیں اور ہم جواباً دانت دکھا کر اپنی کم علمی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ کئی بار ذہن میں یہ خیال آیا بھی کہ کچھ عام سی لگنے والی دفعات کی ایک فہرست تیار کی جائے، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! ہر بار وقت کی کمی آڑے آجاتی۔ خدا بھلا کرے ہمارے ایک جاننے والے مولانا صاحب کا جنہوں نے کچھ دس بارہ عام سی لگنے والی دفعات کی فہرست برقی تار کے ذریعے بھیجی۔ کچھ اِدھر اُدھر سے خوشہ چینی کی اور جو کچھ ہاتھ آیا ذیل میں ملاحظہ ہو۔
یہ دفعات صرف اس لیے سپردِ قلم کی جا رہی ہیں کہ میری طرح کسی اور قانون سے بے بہرہ فرد کو بھی ثبوت کے طور پر میری طرح دانت نہ دکھانا پڑیں۔
اس ضمن میں ماہرینِ قانون سے پیشگی معافی کا خواست گار ہوں، کیوں کہ مختلف کتب کی گرد اُڑاتے بھول چوک بھی ہوسکتی ہے۔ سو ملاحظہ ہوں چند عام لگنے والی دفعات:
٭ کسی مذہب کی توہین کی جائے، تو دفعہ 295 اے لگائی جاتی ہے۔ آج کل بدقسمتی سے اس کا رجحان کچھ زیادہ ہی ہے۔ بعض اوقات تو لوگ ذاتی مفاد کے لیے کسی پر بھی توہینِ مذہب کا لیبل چسپاں کردیتے ہیں۔
٭ قرآن پاک کی غلط تشریح کی جائے، تو دفعہ 295 بی لگائی جاتی ہے۔ "hrw.org” کے مطابق مذکورہ دفعہ پاکستان پینل کوڈ میں 1982ء میں شامل کی گئی۔
٭ توہینِ رسالت کی مد میں دفعہ 295 سی لگائی جاتی ہے۔ "amnesty.org” کے مطابق مذکورہ دفعہ پاکستان پینل کوڈ میں 1986ء میں شامل کی گئی۔
٭ توہینِ صحابہ کی مد میں دفعہ 298 اے لگائی جاتی ہے۔ "refworld.org” کے مطابق سزا کے طور پر ملزم کو ایک سال تک جیل یا جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بعض صورتوں میں جیل اور جرمانہ کی سزا ایک ساتھ بھی دی جاسکتی ہے۔
٭ قتل کی کوشش کی مد میں دفعہ 307 جب کہ قتل کرچکنے کی مد میں 302 لگائی جاتی ہے۔
٭ عصمت دری یا زنا بالجبر کی مد میں دفعہ 376 لگائی جاتی ہے۔ "refworld.org” کے مطابق مجرم کو سزائے موت سنائی جاسکتی ہے یا پھر کم از کم 10 سال یا زیادہ سے زیادہ 25 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
٭ ڈکیتی کی مد میں دفعہ 395 لگائی جاتی ہے۔ "clcbd.org” کے مطابق ڈکیتی کی سزا عمر قید ہے۔ بعض صورتوں میں کم سے کم سزا 10 سال قید ہے۔
٭ غیر فطری حرکتیں کرنے (چاہے وہ کسی مرد کے ساتھ ہوں، خاتون کے ساتھ ہوں یا پھر کسی جانور کے ساتھ) کی مد میں دفعہ 377 لگائی جاتی ہے۔ اس کی سزا کم سے کم دو سال جب کہ زیادہ سے زیادہ 10 سال قید ہے۔ جرمانہ اس کے علاوہ ہے۔
٭ ڈکیتی کے دوران میں قتل کرچکنے کی مد میں دفعہ 396 لگائی جاتی ہے۔
٭ سازش کی مد میں دفعہ 120 لگائی جاتی ہے، جس کی سزا قید ہے۔
٭ اِغوا کی مد میں دفعہ 365 لگائی جاتی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق اس جرم کی پاداش میں 7 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جرمانہ اس کے علاوہ ہے۔
٭ ثبوت کے خاتمہ کی مد میں دفعہ 201 لگائی جاتی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق اس کی کم سے کم سزا چھے مہینے ہے۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑسکتا ہے۔
٭ چوری کی مد میں دفعہ 378 لگائی جاتی ہے۔ "The Penel Code, 1860” میں ’’چوری‘‘ بارے وضاحت کی گئی ہے، جسے رقم کرنے کے لیے ایک الگ تحریر درکار ہے۔
٭ بدلۂ صلح، سورہ یا ونی کی مد میں دفعہ 310 اے لگائی جاتی ہے۔ "senate.gov.pk” کے مطابق سزا کے طور پر 7 سال جیل کی ہوا کھانی پڑسکتی ہے۔ کم از کم سزا 3 سال قید ہے۔
٭ خواتین کی شرمندگی یا ان کی عزت کو خطرہ لاحق کرنے کی مد میں دفعہ 354 لگائی جاتی ہے۔ "clcbd.org” کے مطابق مجرم کو 2 سال جیل کی ہوا کھانا پڑسکتی ہے۔
٭ ہتک عزت کی مد میں دفعہ 499 لگائی جاتی ہے۔ برسبیلِ تذکرہ اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مذکورہ دفعہ میں دو بار کئی کئی ماہ تک عدالتوں کے چکر لگانے کا تجربہ راقم کو حاصل ہے۔
٭ شریکِ حیات کی زندگی میں اس کی مرضی کے بغیر یا اُسے اندھیرے میں رکھ کر دوسری شادی کرنے کی مد میں دفعہ 494 لگائی جاتی ہے۔ حضرات، احتیاط برتیے۔ اگر یہ غلطی سرزد ہوگئی، تو 7 سال جیل کی ہوا کھانے کو مل سکتی ہے اور جرمانہ اس پر مستزاد۔
قارئین کرام! اس گھن چکر میں یہ بھی معلوم ہوا اگر کسی شخص کو قتل کیا جائے اور ملزم ایک ہو، تو اس پر دفعہ 302 لاگو ہوگی، اگر اقدامِ قتل میں ایک سے زائد افراد ملوث ہوں، تو دفعہ 34 بھی ساتھ لگے گی، لیکن اگر قتل میں پانچ سے زائد افراد ملوث ہوں، تو دفعہ 149 بھی ساتھ لگے گی۔
کوئی کلرک، خادم یا کسی بھی قسم کا نوکر اگر دفتر میں کسی بھی قسم کی چوری کا مرتکب ہوتا ہے، تو اس پر دفعہ 381 لاگو ہوتی ہے۔ سزا کے طور پر چوری کے مرتکب شخص کو 7 سال کی سزا کے ساتھ جرمانہ کی سزا بھی دی جائے گی۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔