مینگورہ شہر کی سڑکوں پر جہاں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی وجہ سے جنم لینے والی بے ہنگم ٹریفک شہریوں کا ناک میں دم کرچکی ہے، وہاں دکان داروں اور ریڑھی بانوں نے سیاسی پشت پناہی میں آدھی سڑک پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یہاں کے منتخب نمائندے اپنی سیاسی دکان چمکانے کی خاطر ’’غربت کارڈ‘‘ کھیل کر تاجروں اور چھوٹے دکان داروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جو سوات کو ٹریفک کے حوالہ سے مسائل کی آماج گاہ بنا چکے ہیں۔
قبضہ مافیاز کو سیاسی آشیرباد اس لیے حاصل ہے کہ مینگورہ شہر میں بڑا ’’ووٹ بینک‘‘ کاروباری لوگوں کا ہے۔
مینگورہ شہر بالخصوص تحصیلِ بابوزئی کی قسمت میں جب کوئی بھی ایمان دار اور واضح پالیسی ساز بیورو کریٹ آجاتا ہے، تو وہ ان سیاسی مداریوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال سابق اسسٹنٹ کمشنر تحصیلِ بابوزئی فرخ عتیق صاحب ہیں، جب انہوں نے مینگورہ شہر کی سڑکوں پر سے قبضہ مافیا کا راج ختم کردیا، مضرِ صحت اشیا کا نام و نشان ختم کردیا اور قانون کی پاس داری اور شہریوں کی مشکلات ختم کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، تو یہاں کے ایم پی اے اور ایم این اے کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا اور سیاسی مداخلت کرکے ان کا تبادلہ کرکے ہی دم لیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ فرخ عتیق صاحب نے اس وقت چارج سنبھالا تھا جب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی جیسی ’’سیاسی مداخلت سے پاک‘‘ پارٹی کی حکومت تھی۔
مینگورہ شہر کے چند صحافی مذکورہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کا باقاعدہ نام لے کر فرخ عقیق صاحب کے سیاسی تبادلے پر خبریں چھاپتے رہے، مگر مجال تھی کہ صوبائی حکومت اپنے ممبران سے وضاحت تک ہی طلب کرتی۔ شائد یہ فرخ عقیق صاحب کی خوش قسمتی اور اہلِ سوات کی بدقسمتی تھی کہ وہ اپنی ایمان داری کی وجہ سے کوئٹہ میں کمشنر کے عہدے پر فائز ہوگئے اور تحصیلِ بابوزئی میں ایک بار پھر مختلف مافیے سرگرم ہوگئے۔
قارئین، جب بھی ٹریفک میں رکاوٹ کے حوالے سے ان منتخب نمائندوں سے پوچھا جاتا ہے کہ خوبصورت سوات کے تمام دیگر مسائل کی جڑ ’’بے ہنگم ٹریفک‘‘ ہے، تو کیوں سڑکوں پر چٹائیاں بچھا کر کاروبار کرنے اور ریڑھیوں کی قِطاریں لگانے کی اجازت دی جاتی ہے؟ اس کے جواب میں ایک ’’مضحکہ خیز‘‘ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ "ملک میں غربت ہے۔ اگر اس حوالہ سے سختی کی جائے گی، تو شہریوں کے چولہے ٹھنڈے پڑجائیں گے۔”
تو جناب! اب تو وفاق سے نوکریوں کی بارشیں ہونے کی خبریں آرہی ہیں، تو پھر چند بوندیں اہلِ سوات پر بھی برسا دیں۔
قارئین، اس ملک میں کوئی قانون اور آئین بھی موجود ہے، اندھیر نگری چوپٹ راج تھوڑی ہے! جس طرح غربت کو جواز بنا کر منشیات فروشی اور ڈکیتی کی قانون اجازت نہیں دیتا، اسی طرح سڑکوں پر قبضے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ منشیات فروشی اور ڈاکا ڈالنے کی طرح تجاوزات بھی تو غیر قانونی ہوا کرتے ہیں۔
اب ذرا اس بات پر بھی غور کیجیے کہ نہ صرف سوات کے بالائی پسماندہ علاقوں بلکہ ضلع شانگلہ اور بونیر کے لوگوں کا دار و مدار بھی یہاں کے اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر تمام اہم سرکاری اداروں پر ہے۔ تو پھر کس طرح غربت کو جواز بنا کر تین اضلاع اور ملک بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کو مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے!
اگر غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے، تو پھر کیوں نہ مینگورہ شہر کے چوراہوں پر دن دہاڑے منشیات فروشی اور رات کو ڈاکا ڈالنے کی اجازت دی جائے، کیوں کہ وہ بھی تو غربت اور اپنی محرومیاں ختم کرنے کی وجہ سے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
جاتے جاتے یہی کہوں گا کہ سوات کی انتظامیہ اور منتخب نمائندے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں کہ دیگر علاقوں سے ایمبولینس گاڑی مریضوں کو لے کر سنٹرل اور سیدو اسپتال تک زندہ نہیں پہنچا پاتی، تو کیا اس کا حل آپ کی ذمہ داری نہیں؟
قانون شکنی کے لیے غربت کا جواز کوئی معنی نہیں رکھتا اور سرکاری سڑکوں پر قبضہ جمانا جرم نہیں "سنگین جرم” ہے، اس لیے ہوش کے ناخن لینا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بھئی، یہ انسانوں کا معاشرہ ہے، یہاں انسانوں ہی کا قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ جنگل کا قانون!
اعلا حضرت ڈی سی سوات "جنید خان” کو اس حوالہ سے حرکت میں آنے کی ضرورت ہے!
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔