1974ء سے پہلے وادیِ ہنزہ ایک ریاست تھی۔ بعد ازاں وزیرِ اعظم نے ہنزہ وادی کو گلگت ایجنسی کے ساتھ ملا دیا۔
ہنزہ ویلی چلت کے قریب راولپنڈی کے مغربی چہرے پر دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم اپنا سفر گلگت سے شروع کریں، تو شمالی ہمالیہ کا پورا علاقہ پہاڑوں سے گِھرا ہوا ہے۔ گلگت تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ وہاں پر ایک ڈاک بنگلہ بھی ہے۔ نمل ایک معروف مقام ہے۔ نمل سے چلت تک تقریباً 16 میل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ یہاں راکاپوشی پہاڑ سے گزر کر ہنزہ کی طرف خوبصورت علاقہ ہے۔ یہ پورا علاقہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، پھولوں اور پھلوں سے لبریز ہے۔ برفانی تودوں کے نیچے ندیاں ہیں جو آبشاروں کی مانند چٹانوں سے گر رہی ہیں۔
حسن آباد زرخیر وادی ہے، جو کبھی ہنزہ کا مرکز کہلاتا تھا۔ سیاحوں کے لیے قابلِ دید جگہ ہے۔ ہنزہ وادی کا سفر خطرناک ہے۔ سورج چمکتے ہی پانی کی فراوانی شروع ہوجاتی ہے۔
پاسو، نامی جگہ درختوں اور پودوں سے ٹھکی ہوئی ہے۔ یہاں کے برفانی تودے مسافروں کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
وادیِ ہنزہ ایک تجارتی راستہ بھی ہے جو قراقرم کے تنگ راستوں سے گزرتا ہے۔ عطا آباد جھیل بچوں اور بڑوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
27 فروری 2016ء بروزِ ہفتہ کو ہنزہ ویلی کا روایتی ’’بوفو میلہ‘‘ 52 سال بعد انعقاد پذیر ہوا جس کا افتتاح وہاں کے گورنر میر غضنفر علی خان نے کیا تھا۔ اس قسم کے ثقافتی میلے تفریح کے ساتھ ساتھ مختلف قبائل اور علاقہ جات میں اتحاد کا باعث ہوتے ہیں۔ 1964ء کے بعد ایک ثقافتی زندگی کا ازسرِ نو بیدار ہونا خوش آئند ہے۔ منتظمین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے ہنزہ وادی کی دم توڑتی روایت کو زندہ کیا۔ گلگت بلتستان کے اراکینِ اسمبلی اور افسروں کے علاوہ شائقین کی کثیر تعداد نے اس میلے کو زندگی عطا کی۔
(کتاب ’’انوارِ پاکستان، پاکستان کے بارے میں مختصر انسائیکلو پیڈیا‘‘ از ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، سنہ اشاعت نومبر 2017ء کے صفحہ 126 سے انتخاب)