78 سالہ ’’جو بائیڈن‘‘ نے امریکہ کے پہلے معمر ترین امریکی صدر منتخب ہوکر نئی تاریخ رقم کر دی۔ دوسری جانب امریکی تاریخ میں صدر ٹرمپ ایک ایسے متنازعہ صدر کے طور پر تاریخ رقم کرگئے، جنہوں نے انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے پورے انتخابی عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دھاندلی کے سخت الزامات کے بعد جوبائیڈن کو روایتی طور پر صدار تی انتخابات میں جیتنے پر مبارک باد تک نہیں دی، بلکہ نتائج کو انتہائی متنازعہ قراردیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کو نہ چاہتے ہوئے خالی کرنے پر مجبور ہوئے۔
جو بائیڈن نے 538 میں سے 306 الیکٹرول ووٹ حاصل کرنے کے بعد صدارتی توثیق کے تمام مراحل اور قانونی ضروریات میں کامیابی حاصل کی۔ قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد امریکہ کی عالمی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا جاچکا ہے اور جوبائیڈن کے لیے اپنے دورِ صدارت میں ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں سے جلد رجوع کرنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ خاص کر یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ امریکی روایات کے مطابق جو بائیڈن کے لیے اتنا آسان بھی نہیں ہوگا کہ وہ سابق صدر ٹرمپ کی ایسی پالیسیوں کو مکمل تبدیل کردیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر نافذ کی گئیں۔
صدر جوبائیڈن کی دو برس کی طویل انتخابی مہم کے دوران میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ انہوں نے ڈیموکرٹیکس امیدواروں کو شکست دے کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے ثابت کردیا تھا کہ اگر ٹرمپ وہ شکست دے سکتے ہیں، تو وہ ایک مکمل امیدوار ہیں۔
امریکی انتخابات میں ملنے والے 81,281,891 پاپولر ووٹ کی مدد سے جوبائیڈن نے اپنے تمام کارڈز بخوبی کھیلے۔ سوئنگ ریاستوں سے اعصاب شکن مقابلے میں ٹرمپ (232 الیکٹرول اور 74,223,254 ووٹ) کو غیر متوقع شکست سے دوچارکرنے کے بعد تحمل اور برداشت کے مظاہرے نے جوبائیڈن کے انتخاب پر مہر ثبت کی کہ کئی معاملات میں جذباتی قرار دیے جانے والے جوبائیڈن نے حتمی اعلان ہونے تک تدبر سے کام لیا، اور عجلت پسندی سے کام لینے اور بیانات دینے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا، جس کا انہیں فائدہ پہنچا اور ٹرمپ کو اخلاقی طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
عالمی سروے بتا چکے تھے کہ ٹرمپ اور جو بائیڈن میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا، حسبِ توقع 51.3 فی صد بمقابلہ 46.9 فی صد ایسا ہی ہوا، تاہم ٹرمپ پوسٹل ووٹ سسٹم سے ناخوش تھے اور انہیں خدشات تھے کہ پوسٹل ووٹنگ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پوسٹل ووٹنگ رُکوانے کی متعدد کوششیں کیں، لیکن امریکی پوسٹل محکمے اور ریاستوں نے پوسٹل ووٹنگ سسٹم کو شفاف اور قابل اعتماد قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کے تحفظات کو نظر انداز کیا۔ واضح رہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار 10 کروڑ سے زائد ووٹ قبل ازوقت ڈالے گئے اور ٹرن آؤٹ 66 فی صد رہا۔
ٹرمپ کے حامی، نسل پرستی اور سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے شکست پر سخت دل برداشتہ ہوئے، جس کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور جمہوریت کے مندر کو نشانہ بنایا گیا۔ حلف برداری کی روایتی تقریب جو پہلے ہی کرونا وبا کی وجہ سے محدود اور عوامی نہیں بن سکتی تھی، پُرتشدد ردعمل اور خطرات کی وجہ سے سخت ترین سیکورٹی میں ہوئی۔ جوبائیڈن اب امریکہ کے 46ویں صدر بن چکے ہیں۔ انہیں ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل ہے۔ عوام کی اکثریت بھی انہیں سپورٹ کرتی ہے۔ ان حالات میں ڈیموکرٹیکس کے لیے موافق صورتِ حال کے باعث صدر کے لیے کام کرنا آسان ہوتا ہے۔ امریکہ کو اس وقت دنیا کے سب سے بڑے بحران کرونا وبا کا سامنا ہے۔ شدید مالی اور معاشی بحران کی وجہ سے امریکہ اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔
سابق صدر بش نے اپنے 8 سالہ دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ چھیڑ کر پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالا تھا، جس کے مضر اثرات سے اِس وقت بھی دنیا باہر نہیں نکلی ہے۔ افغانستا ن اور عراق میں جارحیت کے 19 برس بعد بھی امریکہ اپنے اہداف میں کامیابی کا دعوا نہیں کرسکتا، بالخصوص مشرق وسطیٰ و افغانستان میں مداخلت سے امریکہ کو بار بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ٹرمپ نے گو کہ شمالی کوریا، چین، ایران سمیت کئی ممالک کے ساتھ جنگجوانہ رویہ اختیار کیا اور بار ہا عندیہ اور حملے کی دھمکیاں بھی دیں، لیکن ایک کاروباری شخصیت ہونے کے ناتے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جنگ ایک گھاٹے کا سودا ہے۔ اس لیے سنگین ترین لمحات میں بھی ٹرمپ نے جنگ کی غلطی دُہرانے کی کوشش نہیں کی۔ اگر اسے ٹرمپ کا مثبت پہلو قرار دیا جائے، تو غلط نہ ہوگا کہ ایران، شمالی کوریا اور چین کے ساتھ سخت ترین تناؤ کے باوجود جنگ کرنے سے احتراز کی راہ اختیار کی۔ گو کہ معاشی پابندیاں بڑھانے پر پوری قوت صرف کی اور ’’ٹوئٹر‘‘ پر سنگ باری کرتے رہے، لیکن جنگ سے گریز کرنے سے عالمی امن کو کسی بڑی جنگ سے نقصان نہ پہنچا۔ اگر ٹرمپ، سابق امریکی صدور کی طرح نام نہاد دہشت گردی کے نام پر جنگ کی صورت میں پوری دنیا میں امن داؤ پر لگاتے، تو نئی جنگوں سے اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے امریکی معیشت کا مزید بیڑا غرق ہوجاتا، بلکہ امریکی معیشت کے برے اثرات سے یورپ سمیت دنیا کے تمام خطے مزید متاثر ہوجاتے ۔
قارئین، کئی مسلم اکثریتی ممالک میں خانہ جنگیاں، معاشی بحران اور بدامنی سابق صدر بش کی مرہونِ منت اور صلیبی جنگ کے جنون کی دین ہے، جس سے تاحال باہر نہیں نکلا جاسکا۔ بالخصوص پاکستان جس طرح دہشت گردی کا شکار رہا اور خود کش دھماکوں نے پاکستانی معیشت کے ساتھ خارجہ پالیسی میں نقصان اٹھایا، اس کا مداوا بش کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت نہیں کیا۔
اوبامہ کے دور میں پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات مزید خراب تر ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ ٹرمپ نے جب جنوبی ایشیائی پالیسی میں پاکستان کے لیے جس قسم کا رویہ اور پالیسی اپنائی، وہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید کشیدہ کرتی چلی گئی۔ امریکہ کا بھارت کی جانب جھکاؤ اور پاکستان پر دباؤ کا سلسلہ اُس وقت ٹوٹا جب ریاست نے خطے میں امن کی خاطر امریکہ کے لیے قبرستان بننے والے افغانستان کو بند گلی سے نکالنے کے لیے اہم ٹھوس بنیادوں پر سہولت کاری کرکے امریکہ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ اگر غیر جانب دارنہ طور پر جائزہ لیا جائے، تو ماضی میں حکومت کو دیوالیہ ہونے تک لے جانے، ریکارڈ بے روزگاری، اداروں کی تباہی، مالیاتی نظام کی بربادی اور غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا نکتۂ آغاز دراصل امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی جنونی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ پاکستان پر جبراً پالیسیاں ایسی مسلط کرائی گئی جس کے بعد سے پاکستان مسلسل گراؤٹ کا شکار ہے اور ہر آنے والی حکومت کو مسائل ورثے میں ملتے رہے ہیں۔
جوبائیڈن کے ساتھ پاکستانی حکام اور سیاست دانوں کے تعلقات نئی نوعیت کے نہیں ہوں گے۔ جوبائیڈن، اوبامہ انتظامیہ میں پاکستان کے ساتھ سیاسی و سفارتی تعلقات سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی ترویج کرنا کوئی نیا معاملہ نہیں۔ یقینی طور ٹرمپ دور میں پاکستان کے ساتھ امریکی رویے اور مملکت کی جانب سے امریکی مفادات کے لیے پہلے سے بڑھ کر سہولت کاری کا مثبت رویہ جوبائیڈن کو پاکستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات میں ممد و معاون ہوگا اور امریکہ کو پاکستان کے ساتھ ایسا منفی رویہ اختیار کرنے سے بھی روکنے میں تعاون فراہم کرے گا جو اس سے قبل ان کے نائب صدارت کے دور میں کشیدگی کی حد تک بڑھ چکا تھا۔
جوبائیڈن کے نائب صدارت کے دور کا تجربہ پاکستان کے حوالے سے اتنا خوش گوار نہیں رہا ہے۔ کیوں کہ ان کے دور میں پاکستان پر ڈورن حملوں کا سلسلہ عروج پر تھا۔ کیری لوگر بل، سلالہ سانحہ اور ریمنڈ ڈیوس تنازعہ سمیت ایبٹ آباد آپریشن جیسے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی سرد مہری اور بڑی حد تک کشیدہ تھے۔ جوبائیڈن اور پاکستان ان ناخوشگوار یادوں کے ساتھ ایک نئے مثبت سفارتی دور کا آغاز کرنے کے خواہاں ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکہ کے لیے اس نے ان ناممکن کاموں میں سہولت کاری ہے جس کے باعث امریکہ، افغانستان کی سرزمین سے اپنے باقی ماندہ فوجیوں کو باعزت طریقے سے واپس لے جانے کا راستہ حاصل کرچکا ہے۔ اسی طرح ماضی کے مقابلے میں پاکستان، امریکہ کے فوجی سازو سامان کی واپسی کے لیے زبردست معاونت فراہم کررہا ہے۔ خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ایسا کوئی کردار بھی ادا نہیں کررہا، جس سے امریکہ کو مزید سبکی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ ایران اور امریکہ کے تنازعہ میں امریکی مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔
اس طرح جوبائیڈن کا زیادہ جھکاؤ بھارت کی جانب رہا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب 1975ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو پابندیوں کے خلاف امریکی کانگریس میں پابندی کی قرار داد میں ناکامی میں ایک ووٹ کی وجہ سے بھارت بچ گیا اور وہ ووٹ جوبائیڈن کا تھا۔ گو کہ مودی سرکار ٹرمپ کے انتہائی قریب رہی ہے اور کھلم کھلا ٹرمپ کا ساتھ بھی دیا ہے، لیکن امریکی پالیسیاں، شخصیات کے تعلقات پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں۔
اس طرح اگر نائب امریکی صدر کملا ہیرس کے بیانات کا جائزہ لیا جائے، تو وہ بھارت کی موجودہ ریاستی پالیسی کی شدید مخالفت کا تاثر دیتے ہیں، لیکن امریکہ، بھارت کے تعلقات کی نئی نوعیت چین مخالفت کی وجہ سے تبدیل ہوچکی ہے۔ اس لیے یہ توقع رکھنا خوش فہمی ہوسکتی ہے کہ جوبائیڈن اور کملا ہیرس کے آنے سے مودی سرکار کو جھٹکا ملے گا۔ پاکستان کو امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہوگی اور جوبائیڈن کو اوباما دور کے خمار سے نکالنے کے لیے مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہوگی۔
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔