فطرت ارتقائی ہے۔ اس کے مطابق ہر چیز دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہتی ہے۔ آگے بڑھنے سے اس کی صورت میں تبدیلی آتی ہے اور ڈھیر ساری خصوصیات میں بھی۔ ساتھ ساتھ جب اس کے پاس حواس ہوں، عقل بھی ہو اور اس کے پاس اخبارِ صادقہ جس کو یہ سچ سمجھتا ہو، وہ بھی آتا ہو، تو اس کے علم اور معلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ چاہے وہ اس کے حصول کا ارادہ کرے یا نہ کرے۔ کیوں کہ اس نے جو دیکھا وہ دیکھا اور جو سنا وہ سنا اور وہ اس کے دماغ میں چلا گیا۔ یہ علاحدہ بات ہے کہ بعض مابہ الارادہ حاصل شدہ معلومات یہ جلدی بھول بھی جائے، لیکن وہ حاصل تو ہوئے تھے اور اس نے اس کے دماغ پر کچھ نقش بھی چھوڑے ہوتے ہیں۔
لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بچہ پیدا ہوجاتا ہے، دھیرے دھیرے بڑھتا ہے، بالغ ہو جاتاہے، پھر جوان بن جاتا ہے، پھر کہولت میں چلا جاتا ہے، پھر بوڑھا ہوجاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ہر چھوٹے کو بڑا ہونا ہوتا ہے۔ یہی فطرت ہے۔ اس نے بہرحال بڑا ہونا ہے۔ الا آں کہ درمیان میں موت اس کا پتا کاٹ دے۔ لیکن کیا ہر بڑا معناً اور صفتاً بھی بڑا بنا ہوا ہوتا ہے کہ بڑا پن کے معنی کیا ہیں اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
تو ایسا نہیں ہوتا، ڈھیر سارے کبھی زندگی میں بڑے نہیں ہوئے ہوتے۔ مرنے تک وہ بچے رہتے ہیں کہ بڑا ہونا عقلمند ہونا ہوتا ہے۔ بابا عبدالرحمان نے فرمایا:
تورہ گیرہ می شوہ سپینہ حق حیران یم
چہ رحمان لا نہ عاقل شوم، نہ بالغ
یعنی میری کالی داڑھی سفید ہوگئی، لیکن حیران ہوں کہ میں رحمان ابھی تک عاقل بن سکا، نہ بالغ۔
ارتقا کی یہ منازل افراد بھی طے کرتے ہیں اور ادارے بھی۔ انسانون کا ارتقا جو اجتماعیت اور سماجیت کے رنگ میں ہوتا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے چار مدارج ارتقایات کے نام سے بیان فرمائے ہیں۔ تو ہم جیسے فرد کے طور پر مرتقی ہوتے ہیں، اس طرح ادارے بھی ہوتے ہیں۔ البتہ ارتقا ہم آہنگی سے ہوتا ہے کہ بچے کا سارا بدن گروتھ کرجائے، جس میں دماغ بھی شامل ہے۔ ہاں، بعض اوقات کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے بدن کا ارتقا تو ہوتا رہتا ہے، البتہ دماغ کا نہیں ہوتا۔ بندہ 18، 20 سال کا بالغ ہوا ہوگا، لیکن اس کا دماغ ابھی تک 8، 10 سال کے بچے کا ہی ہوتا ہے۔ اب بدنی قوت سے تو وہ کسی کو پچھاڑ سکتا ہے، لیکن اگر دماغ بھی ’’گروتھ‘‘ کرچکا ہوتا ہے، تو بندہ سوچتا ہے کہ کیا پچھاڑنا بھی ہے کسی کو؟ اور بسا اوقات اس کا دماغ اس کے عواقب کی خبر دیتے ہوئے اسے منع کرتا ہے، تو وہ رک جاتاہے۔ اب بچے کا دماغ تو ایسا کام نہیں کرتا، لہٰذا یہ قوی جوان فوراً چڑھ دوڑتا ہے اور پھر بعد ازاں مدتوں تک عواقب سہتا رہتا ہے۔
عقل مند لوگ اداروں کو جو ممالک کے لیے اعضا کی طرح ہیں، کے ایک ساتھ گروتھ کو یقینی بناتے ہیں کہ سارے ادارے آگے بڑھیں، تاکہ بدنظمی، بدانتظامی، دنگا فساد اور اضطراب پیدا نہ ہو، اور ملک و قوم کی حالت بہتر ہو، لیکن کیا کیا جائے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انفرادیت پسندی اور افرادی زندگی نے ہر بندے کے حرص و بخل اور سرکشی و انانیت کو مہمیز کردیا ہے، اور یوں یہ چیز دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ حالات ایسے ہوں، تو اصلاح کرنے کی خاطر بہت کم ہی معاشرہ میں کوئی اٹھتا ہے کہ اسے بھی یہ وائرس یا اس کا کوئی اثر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یا اس وائرس کے پھیلاؤ نے اسے کم از کم دبا کے رکھا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے اوپر جبر کرکے اٹھ بھی جائے، تو اس کے متعلق کسی کا ذہن نہیں بنتا کہ ان حالات میں کوئی انفرادیت سے اُٹھ کے اجتماعیت کا بھی سوچ سکتا ہے، یا کرسکتا ہے بلکہ وہ اسے اس کا ٹریپ سمجھتے ہیں کہ یہ ہے پھنسانے کا ایک نیا طریقہ، اور بسا اوقات ایسا ہوا بھی ہوتا ہے۔
ایسے میں بجائے اس کے کہ اللہ والے کو رفیق ملیں۔ اس کا واسطہ دشمنوں سے پڑتا ہے۔ وہ بندہ پھر بھی اگر صاحبِ عزم ہو، تو اپنے کو آگے کی طرف کھنچتا رہتا ہے اور اگر ہمت کہیں ہار بھی جائے، تو یا تو بددلی سے ایک جانب ہوجاتا ہے کہ ’’لکم دینکم ولی دین!‘‘ یا پھر غیظ و غضب کا اظہار شروع کرتا ہے۔
بعض اوقات اس قسم کی خیر کے لیے اٹھنے والے بندے کے ذہن میں شیطان یہ بٹھا دیتا ہے کہ صرف آپ ہی ہیں اور تو کوئی ہے نہیں۔ کیوں کہ شیطان اپنے کام سے سوتا بھی نہیں اور غفلت کا ارتکاب بھی نہیں کرتا۔ اس نے ’’لاقعدن لہم‘‘ اور ’’لاغوینہم‘‘ جیسے کلمات کے ذریعے اپنا عزم بہت پختہ انداز سے ظاہر کیا تھا، جس میں’’لام‘‘ ہے تاکید بلکہ ’’موطۂ للقسم یاللقسم‘‘ کا اور ’’نون‘‘ ہے تاکید کا، اور وہ بھی ثقیلہ کا، یعنی آگے پیچھے سے اس نے اپنی بات کو مؤکد اور پختہ کردیا ہے۔ تو اس بندے کے ذہن میں بھی آجاتا ہے کہ میں فردِ کامل ہوں۔ سو اس کی تگ و دو اس بات کی کہ دیگر کاملین کو تلاش کرکے ساتھ ملائے۔ وہ تگ و دو رُک جاتی ہے۔ وہ تو اب فالوورز کو ڈھونڈے لگتا ہے جو اس کے پیچھے لگ جائیں، حتی کہ جاتے جاتے اسے کامل مل بھی جائیں، وہ ان کو بھی اپنے پیچھے لگانا اور اس کی بات پر ’’آمنا و صدقنا‘‘ کہنے والے بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر کامل نہیں، ویسے آٹھ دس عام لوگ ساتھ ملیں، وہ ان کو لے کر انقلاب برپا کرنے نکل جاتا ہے۔
دوسری طرف اگر کچھ کامل قسم کے لوگ ہوں بھی، تو ان کا اس پر اعتماد کہ صحیح ہے اور صحیح رہے گا، یہ نہیں بنتا۔ اور بسا اوقات اگر وہ ساتھ دیں بھی، تو اس کا ان پر اعتماد نہیں بنتا۔ یہ ان کے متعلق شک میں مبتلا رہتا ہے کہ شاید یا تو مجھے ناکام بنانے ساتھ ہوئے ہیں، یا خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے شامل ہوئے ہیں۔ اس کے دل میں نہ بھی ہو، تو دیگر لوگ اس کو ہمیشہ اس قسم کی باتیں دل میں ڈالتے رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ ایک جانب ہوکر پھر کوئی اور طریقہ اختیار کرجاتا ہے۔ یعنی اب اس کی سوچ منفی ہوجاتی ہے۔ وہ تنقید کرنے اور تنقیص کرنے لگ جاتا ہے اور یہ ثابت کرتا رہتا ہے کہ مَیں صحیح ہوں، باقی لوگ غلط ہیں۔ اس طرح وہ ایک فکر متعارف کرا دیتا ہے اور اگر کچھ لوگ اس فکر کو قبول کریں، تو ایک فرقہ وجود میں آجاتا ہے۔
آگے کی بات تو معلوم ہے کہ بندہ اگر علمی میدان سے کچھ واجبی سا تعلق بھی رکھتا ہو، تو وہ چیلنج کرنا شروع کردیتا ہے، اور اگر کوئی اور بھی اس جیسا اس میدان میں ہو، تو وہ بھی یہی کرتا ہے اور یوں ایک دو مسئلوں پر مناظرے، تعصبات، گروہ بندیاں اور بسا اوقات نوبت قتل و قتال تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم کبھی بڑے اور بالغ نہیں ہوئے ۔
یہی مسئلہ دیگر میدانوں میں بھی ہے۔ آپ سیاسی میدان کو دیکھیں، یا تعلیمی میدان کو لے لیں، وہاں بھی بلوغت نہیں۔
سیاست میں وہی کھینچا تانی، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا اور سیاست کو کار و بار بنانے کا کام جاری ہے۔ کاروبار میں تو رقابت ہوتی ہے، رفاقت نہیں ہوتی۔ تبھی تو ملک بنا اور نہ قوم اور قومیت۔ رہی بات کسی نظریے کی ترویج اور عملیت کی، تو وہ تو ملک اور قوم بننے کے بعد کا مرحلہ ہے۔ گویا ابھی تک ہم بنیاد بھی نہ بنا سکے۔ ملک بننا کسی خطے کا ہونا نہیں بلکہ کسی خطے پر موجود ملک کا عالمی برادری میں باوقار ہونا ہے۔ یہ تب ہوگا جب معیشت جو آج کل محور بن چکی ہے اور دنیا اور دنیا کے معاملات اس کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں، وہ مستحکم ہو۔ اس کا استحکام آج کل ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے میدان سے ہے کہ آج کی تو صنعت، تجارت، تعلیم حتی کہ زراعت بھی ٹیکنالوجی پر موقوف ہے۔
کسی زمانے میں صرف مہارت کی ضرورت ہوتی تھی کہ کیسے کرنا ہے؟ لیکن اب کے دانش کی ضرورت مہارت سے مقدم ہے کہ کیا کرنا ہے؟ پہلے وہ طے ہوجائے، پھر اس میں مہارت ہو۔ سو سوچنا ضروری ہے کہ تعلیم اور کون سی تعلیم یعنی دنیا کے حوالے سے، اور یہ اس لیے کہ تعلیم اور ترقی باہم دگر مربوط ہیں۔
سو اول سوچنا ہے کہ کیا کرنا ہے؟ اور پھر سوچ کے بعد جب بات ذہن میں آئے، اس کو عملی جامہ پہننانا ہے۔ یعنی بحیثیتِ فرد بھی اور بحیثیتِ قوم بھی میدان جاننا اور جانچنا، پھر سوچنا، سوچ کا طریقہ جاننا اور بعد ازاں عمل کا طریقہ جاننا۔
ہم سوچنے سے زیادہ جذبات سے کام لیتے ہیں۔ جذبات فطرت میں ہیں، لیکن انسان اس میں اعتدال لانے کا مکلف ہے۔ یعنی جذبے کو سوچ اور عمل کے پیچھے لگائیں، تاکہ وہ سوچ کو بھی توانائی فراہم کرے اور عمل کو بھی۔ سوچ اور عمل کو جذبات کے پیچھے لگانا، تو تانگے کے پیچھے گھوڑا باندھنا ہے جو چلنے والا نہیں بلکہ یا تو تانگا ٹوٹے گا یا گھوڑا زخمی ہوگا۔
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔