برطانیہ میں فٹ بال کھیلنے اور اسے دیکھنے کا جنون ہے۔ برطانوی لوگوں کی اکثریت اپنی قومی ٹیم کے علاوہ کسی نہ کسی فٹ بال کلب کی ’’فین‘‘ (مداح) اور ’’سپورٹر‘‘ ہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، ویلز اور ناردرن آئرلینڈ کی ٹیمیں علیحدہ علیحدہ ملک کے طور پر حصہ لیتی ہیں۔ انگلینڈ نے صرف ایک بار 1966ء میں ورلڈ کپ جیتا، لیکن یونائیٹڈ کنگڈم کے لوگوں کی فٹ بال کے کھیل میں دلچسپی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہ کھیل برطانوی لوگوں کے لیے سب سے بڑی تفریح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی فٹ بال اسٹیڈیم میں کسی بڑے کلب کی ٹیم کا میچ ہوتا ہے، تو اس کی ٹکٹیں میچ والے دن سے بہت پہلے ہی بک جاتی ہیں۔ اسی لیے مختلف ٹیموں کے مداح پہلے ہی سے سال بھر کی سیزن ٹکٹ خرید لیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مختلف کلبوں کے سپورٹر اپنی اپنی ٹیموں کے مفلر، شرٹس، جیکٹس، ٹوپیاں، کی رنگز، بٹوے ، میگزین اور دیگر ’’سونیئرز‘‘ بڑے ذوق و شوق سے خریدتے ہیں۔
میچ دیکھنے والوں کی اکثریت اپنے دوستوں کی ٹولیوں کے ہمراہ اپنے بچوں کے ساتھ اور اپنی بیوی یا پارٹنر کا ہاتھ تھامے اسٹیڈیم میں آتی ہے۔ ہر فٹ بال اسٹیڈیم میں ہزاروں لوگوں کے میچ دیکھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ میچ شروع ہونے سے پہلے ہر ٹیم کے سپورٹر اپنے اپنے کلب کے نعرے لگاتے ایک خوش گوار کیفیت کے ساتھ تفریح کے موڈ میں اسٹیڈیم آتے ہیں اور جو لوگ اسٹیڈیم نہیں آسکتے، وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر باقی سب کام چھوڑ کر خاص اہتمام سے سپورٹس چینل پر یہ میچ دیکھتے ہیں۔ فٹ بال کے کھیل اور تفریح سے اربوں پاؤنڈز کا بزنس بھی منسلک ہے۔
برطانوی لوگوں کی زندگی میں دوسری بڑی تفریح میوزک یعنی موسیقی اور شوبز (سینما وغیرہ) ہے۔ برطانیہ کے طول و عرض میں موسیقی کے بڑے بڑے کنسرٹ ہوتے ہیں۔ کچھ کا اہتمام بڑے بڑے آڈیٹوریمز اور ہالز میں ہوتا ہے اور کچھ کا انتظام بڑے بڑے پارکوں میں ہوتا ہے۔ میوزک کے ان پروگرامز میں اپنے پسندیدہ سنگرز کو دیکھنے اور سننے کے لیے ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ برطانوی لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھیٹر اور سینما جانے کی شوقین ہے، ہر نئی فلم اور ہر نئے ڈرامے کی نمائش پر بیشتر سینما ہال اور تھیٹر لوگوں سے کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں۔ موسمِ بہار اور موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی برطانیہ میں آلٹن ٹاؤرز، چیرنگٹن، لیگو لینڈ، تھورپ پارک، نیو فارسٹ واٹر پارک، بلیک پول رائیڈر اور اسی طرح کے دیگر تفریحی مقامات بچوں اور فیملیوں کے لیے کھل جاتے ہیں، جب کہ مختلف شہروں میں طرح طرح کے فیسٹیولز کا اہتمام ہونے لگتا ہے۔ سرکس اور ورائٹی شوز کی کشش بچوں اور فیملیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ مختلف طرح کے کلب اور نائٹ کلب برطانوی نوجوانوں کے لیے تفریح کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
ان سب حقائق کی نشان دہی کا مقصد صرف اس بات کا احساس دلانا ہے کہ تفریح انسانی زندگی کے لیے کس قدر اہم اور ناگزیر ہے۔ بچے ہوں، نوجوان ہوں، عورتیں، مرد ہوں یا بزرگ، اگر ان کی زندگی میں تفریح کا کچھ نہ کچھ اہتمام نہیں ہوگا، تو معاشرہ رفتہ رفتہ گھٹن اور نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کا شکار ہو جائے گا۔ اس ملک میں بزرگوں کی تفریح کے لیے بھی طرح طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں، تاکہ زندگی سے ان کی دلچسپی برقرار رہے۔
کہتے ہیں کہ تفریح ان لوگوں کا مسئلہ ہے جن کا پیٹ خالی نہ ہو، اسی لیے برطانیہ میں ایک ایسا ’’ویلفیئر سسٹم‘‘ قائم ہے کہ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے برطانیہ میں انڈے، دودھ، ڈبل روٹی اور کھانے پینے کی دیگر اشیائے ضرورت کی چیزوں کی قیمت بہت کم ہے۔ سرکاری امداد حاصل کرنے والا کوئی بھی شخص ان اشیا کو بڑی آسانی سے خرید کر نہ صرف اپنا پیٹ بھر سکتا ہے، بلکہ اپنا خاطر خواہ گزارہ کر سکتا ہے۔ مَیں حیران ہوتا ہوں کہ برطانیہ کے لوگوں کی اکثریت مذہبی نہیں، لیکن اس کے باوجود یہاں کے لوگ بہت کم جھوٹ بولتے ہیں، منافقت نہیں کرتے، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ نہیں کرتے، کم نہیں تولتے، قانون اور ضابطے کی پاس داری کرتے ہیں۔ یہاں کے گرجا گھر اور چرچ سنسان ہو رہے ہیں، لیکن انسانی حقوق کو آج بھی یہاں فوقیت حاصل ہے۔ مَیں جب ان حالات کا موازنہ وطنِ عزیز میں بڑھتی ہوئی گھٹن اور نفسیاتی مسائل سے کرتا ہوں، تو ایک حقیقت جو بہت واضح طور پر اس بات کا شدت سے احساس دلاتی ہے کہ ہمارے معاشرے سے تفریح کو نکال دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں۔
ایک زمانہ تھا (چار دہائیاں پہلے تک) جب پاکستان میں آبادی کم تھی، زندگی سادہ تھی، ہر خاندان میں ایک کماتا اور باقی کھاتے تھے۔ ملک بھر میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ سینما تھے جہاں ہر طبقے کے لوگوں کو اصلاحی تفریح میسر تھی۔ سرکس اور میلوں ٹھیلوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ مختلف شہروں میں موسیقی کے پروگرام اور ’’ورائٹی شوز‘‘ منعقد ہوتے تھے۔ ہاکی مقبول ترین کھیل تھا۔ دیسی کھیل بھی تمام لوگوں کے لیے کشش کا باعث تھے۔ کبڈی اور کشتی کے کھلاڑی اپنے علاقے کے ہیرو سمجھے جاتے تھے، لیکن رفتہ رفتہ عام لوگوں سے تفریح کے یہ تمام تر وسائل چھن گئے، یا ایک سوچی سمجھی سازش یا حکمتِ عملی کے تحت یہ تفریحی ذرائع چھین لیے گئے۔ اُن کو دو وقت کی روٹی کے چکر میں ایسا پھنسایا گیا کہ ان کے لیے تفریح کا واحد ذریعہ صرف اپنی منکوحہ رہ گئی، جس کے نتیجے میں ملک کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور پھر روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت صرف ایک خواب بن کر رہ گئی۔ ملک کو چلانے والے اربابِ اختیار اور سیاست دانوں (تاجروں، جاگیرداروں اور علمائے کرام) نے ہر طرح کے وسائل کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ہر طرح کی تفریح کو صرف اپنے طبقے تک محدود کرلیا۔ آبادی میں مسلسل اضافہ کرنے والے بے چارے مفلوک الحال عوام دن بہ دن مسائل، مشکلات اور مصیبتوں کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے معاشرتی توازن کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ تفریح کے ذرائع چھن جانے سے معاشرتی گھٹن تیزی سے بڑھ رہی ہے، نفسیاتی مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، محض نعروں، وعدوں اور دعوؤں پر ٹرخانا اب زیادہ دیر ممکن نہیں رہے گا۔ اہلِ اختیار کی طرف سے کیے جانے والے ہر ظلم کے حساب اور جزا کو روزِ آخرت پر ٹالنے کا درس اب زیادہ دیر بے اختیار لوگوں کو یاد نہیں رہے گا۔
آج کے پاکستان میں جن سنگین جرائم کا اضافہ ہو رہا ہے، وہ اسی گھٹن کا شاخسانہ ہیں۔ یہ جو ایک مغالطہ ہے کہ اہلِ اسلام یا پاکستان کے خلاف مغربی قوتیں سازش کر رہی ہیں اور پاکستان کے سنگین مسائل نے انہی سازشوں کی وجہ سے جنم لیا ہے۔ اہلِ مغرب کے پاس اتنا وقت اور وسائل نہیں کہ وہ اپنے ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کی فکر کرنے کی بجائے تیسری دنیا کی مفلوک الحال قوموں کے خلاف سازشوں کا جال بنیں۔ اس کام کے لیے ہمارے اپنے ملک کے سیاست دان اور حکمران کافی ہیں، جنہوں نے دولت کی غیر مساوی تقسیم کا ایسا جال پھیلایا ہے کہ ملک کے تمام تر وسائل اب صرف مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہوگئے ہیں۔ عوام کے حصے میں صرف جھوٹے وعدے، گھٹن، محرومیاں، مجبوریاں، لاچاریاں اور بے اختیاری رہ گئی ہے۔
ملکی وسائل پر قابض طبقے نے ایک سازش کے تحت عوام کو اس گھٹن اور اندھیرے کی قید میں دھکیلا ہے۔ہم جو خود کو دنیا کی ذہین ترین قوم سمجھتے ہیں، معلوم نہیں کب تک اس کو اپنا مقدر سمجھتے رہیں گے ؟
کوئی دریچہ ہوا کے رُخ پر نہیں بنایا
مرے بزرگوں نے سوچ کر گھر نہیں بنایا
……………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔