اپنوں کی میّت پر بین کرنا فطری اَمر ہے۔ پر اُسی ماتم کوجب دانستہ الفاظ کا جامہ پہنانا پڑے، تومرحوم کی زندگی کی چہل پہل اور موت کا نقشہ ایک ساتھ آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتا ہے۔ جذبات اُچھلتے ہیں اوردِل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ آوازبیٹھ جاتی ہے۔ ناک بہنے لگ جاتی ہے۔ آنسو آکر پلکوں سے ٹپکنے لگتے ہیں اور نتیجتاً کاغذ تربہ ترہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنے بھتیجے شاہد علی خان اور استادِ محترم محمد زبیر (مرحوم) پرلکھنے کے بعدماتمی کالموں کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔ یہاں تک کہ اپنے پدر جیسے بھائی کی موت پردو سطربھی نہ لکھ پایا۔ پھر ایک دن اپنے دوست حکیم اللہ بریالی نے مجبور کیا۔ اُس نے کہا: ’’وہ تحریر ہی کیا جو خود لکھاری کو رُلا نہ سکے!پھرایک لکھاری اگر اپنے دوسرے لکھاری پر نہ لکھے، توکون آکے لکھے گا؟‘‘ جبھی توآنسوؤں کی لڑی کے ساتھ ہچکیاں بھر بھر کر لکھنے بیٹھ ہی گیا:
پہ زڑہ می اُورہ د یار غمہ
چی می دَ سرو سترگو روان شی سیلابونہ
قارئین، چوڑا چکلا سینہ، دراز قد، داڑھی چٹ، مناسب دہن جس کے جلو میں ناک وجاہت کا جھنڈا لہراتی اورمسکراتے لب دوسروں کے لبوں پر ہنسی بکھیر کر رکھ دیتے۔ خوبصورت آنکھیں دور اندیشی کی علامت، چوڑی پیشانی وسیع النظری کی مظہر، بڑے مگر دیدہ زیب کان دوسروں کو سننے کے غماز، جب کہ سرکی ساخت پُرمغزی اور بال جو نہ زیادہ گھنے نہ کم انہیں اقبال مند ظاہر کرنے میں بخل سے کام نہ لیتے۔ چال ڈھال میں مناسب بانکپن ان کی شریف النفسی کا مظہر تھا، جس کے ساتھ نام ’’بابو‘‘ سوٹ کرتا تھا۔ علمی مرتبہ اور قلمی رتبہ اُن کی اقبال مندی کی تصدیق تھا۔خوبیوں کے باغ کے پکے اس پھل کوتصدیق اقبال کہتے تھے۔
اس بھلے مانس سے میری شناسائی محض علم و ادب کے حوالہ سے نہ تھی بلکہ سکولوں کی تقریبات، بزمِ ادب کے مقابلوں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے امتحانات اور دیگر سرگرمیوں میں بھی اُن سے اکثر ملاقات ہو جاتی۔ اُن کواچھی طرح جاننے کی بڑی وجہ عزیز الحق اور نور لاحد سے اُن کی دوستی تھی، جس کی بدولت سبحانی جوہر سے بھی شناسائی ہوگئی۔
بابو تقریباً ہر اُس شاعر اور ادیب پر کالم لکھتے تھے، جس کی کتاب اُن تک پہنچ جاتی۔ انہوں نے تو ایسے افراد پربھی لکھا جن کاکتاب سے دورکاواسطہ بھی نہ تھا۔ تبصرہ علمی، تجزیہ سائنسی اورتنقید شعوری کیا کرتے تھے۔ یہ ان خوبی تھی کہ کسی کے کام پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے میں بخل سے کام نہ لیتے۔
اکثر افراد مجھ سے بھی کالم لکھوانے کی خواہش ظاہر کرتے۔مَیں بہانہ بناتا کہ بابو مجھ سے ہزار درجہ بہتر لکھتے ہیں۔ یوں مَیں اُن حضرات سے کہتا، چلو! انتظار کرتے ہیں۔ اگر بابو نے لکھ دیا، تو نور علی نور، اور اگر انہوں نے خامہ فرسائی نہیں کی، تو پھر میں حاضر ہوں!
اب یہ بہاناکہاں سے تلاش کروں گا۔
لکھنے والے تو اور بھی جنم لیں گے، لیکن بابو جیسے بے لوث محبت اوربغیر صلے والوں کی کمی ضرور رہے گی۔ کیوں کہ ایسی تنقیدی رائے دینا جس میں ممدوح کیہروقت خفا ہونے کا اندیشہ لاحق ہو، یہ کام صرف بابو جیسے بڑے دِل گردے کا مالک شخص ہی کرسکتا تھا۔
یہ میری خوش بختی ہے کہ میری کتاب ’’درشخیلہ (سوات) تہذیب کے دریچے میں‘‘ پر نظرِثانی انہوں نے کی۔ انہوں نے اس پر اپنے تأثرات بھی قلم بند کیے، اور کتاب کانام بھی فائنل کیا۔ وہ مذکورہ کام لاہور جانے سے ایک دِن قبل مکمل کرچکے تھے۔ صرف دو مضامین اپنے ساتھ لے گئے، تاکہ فارغ وقت میں اس کی نوک پلک سنوار کر اخترحسین ابدالی کو واپس کریں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دوسرے دن ان کے ساتھ ہونے والے حادثہ کی خبرپہنچی۔ خبر یوں تھی: ’’سبحانی جوہر، روح الامین نایابؔ اور تصدیق اقبال بابو سلنڈر کے دھماکے میں گیس سے لگنے والی آگ میں بری طرح جھلس گئے ہیں۔‘‘
نایابؔ صاحب کو فرسٹ ایڈ دینے کے بعد چھٹی کیا گیا، لیکن سبحانی اور بابو کو مزیدعلاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ شنید ہے کہ علاج اچھے طریقے سے ہو رہا تھا، لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلے بابو اور دو روز بعد سبحانی بھی چل بسے۔ بابو کی موت سے گویا صفِ ماتم بچھ گئی۔ ہر طرف سے لوگ جنازہ پڑھنے امنڈ آئے۔ ہم بھی ترنت اختر حسین ابدالی، بدر الحکیم حکیم زے، عطاء اللہ اور محمد شیر علی خان کی معیت میں عالم گنج پہنچ گئے۔ عصر کے وقت لوگ جنازہ پڑھنے جمع ہو رہے تھے۔ کیوں کہ ایک باکردار، بااخلاق ہیڈماسڑ اور میٹھے لہجے کا ایک ملن سار لکھاری رخصت ہو رہا تھا۔ سروں کے سیلاب کے اُس منظر کوحکیم اللہ بریالے اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
دا د چا د جنازے کٹ می نیولے
چی بلو اوگو تہ پیغلے راسورے کڑے
جب کہ سعیداللہ خادمؔ صاحب ’’پروازِ خیال‘‘ میں یوں گویاہوتے ہیں:
اپنی آنکھوں سے ہم نے حشرکو بپادیکھا
تونے اس روز حجاب ِکفن میں کیادیکھا
لوگ میّت کو قبرستان کی طرف لے جا رہے تھے، لیکن معلوم ایساہوتا تھاکہ میّت سبحانی جوہر کی راہ تک رہی تھی۔
غم ژن زہ غم ژن می یار دے
غم ژن بہ دواڑہ پہ غم ژنہ لارہ زونہ
سبحانی جوہر بھی اپنے مرحوم لنگوٹیے کے پاس دو دن بعد روانہ ہوگئے۔دونوں سیر کے شوقین تھے۔یہ ان کی آخری سیر ثابت ہوئی۔
برسبیلِ تذکرہ، سیّد قائم علی شاہ کہتے ہیں: ’’ایک ٹیچر کی قابلیت اور پڑھانے کا اچھا انداز عظیم ہونے کی نشانی نہیں، بلکہ عظیم انسان وہ ہے جس کے جنازے میں ہر کوئی بے بدل شرکت کرے۔‘‘ اگر واقعی ایسا ہے، تو بابو اور سبحانی دونوں اس امتحان میں پاس ہوگئے۔
اشنا می لاڑ خوشی ئے یوڑہ
پہ بدل کی ئے راتہ پریخودو غمونہ
غم دی یوازے پہ مار بار کڑو
تہ شین طوطی شوے پہ ہوا لاڑے مئینہ
د سترگو تور د زڑہ ملہمہ
د جانان غمہ پہ سینہ کی دے ساتمہ
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔