یہ 1993ء کی بات ہے، مَیں نیا نیا لندن آیا تھا۔ مجھے ولزڈن گرین میں جو رہائش میسر آئی، وہاں میرے ساتھ والے فلیٹ میں ایک پاکستانی نوجوان پہلے سے مقیم تھا۔ ذرا سی شناسائی ہوئی، تو ایک روز اس نے بتایا کہ مَیں پانچ بار ڈرائیونگ ٹیسٹ دے چکاہوں، مگر ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام ہو جاتا ہوں۔ چھٹی بار ناکامی پر تنگ آ کر اس نے کہنا شروع کر دیا کہ ڈرائیونگ ٹیسٹ لینے والے گورے ایگزامنر (Examiner) نسل پرست ہوتے ہیں۔ اس لیے مجھے ہر بار ٹیسٹ میں فیل کر دیتے ہیں۔ مَیں نے اسے بتایا کہ جب تک کسی ٹیسٹ دینے والے کی ڈرائیونگ مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ہوتی، اس وقت تک ایگزامنر اسے پاس نہیں کر سکتا۔ اس لیے تمہیں مزید ڈرائیونگ لِسن (Lesson) لینے کی ضرورت ہے۔ میری یہ بات اسے پسندنہ آئی۔ اُن دنوں برطانوی ڈرائیونگ لائسنس پر ڈرائیور کی تصویر نہیں ہوا کرتی تھی۔ پرویژنل یا فل ڈرائیونگ لائسنس محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتا تھا۔ میرے اس ہمسائے نے ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کی’’خدمات‘‘ حاصل کیں جو اس کی جگہ ڈرائیونگ ٹیسٹ دینے گیا اور پاس ہوگیا۔ اس طرح میرے اس ہمسائے نوجوان کو برطانیہ کا فل ڈرائیونگ لائسنس مل گیا۔ چند روز بعد اس نے کار خریدی اور اگلے ہی ہفتے رات کو گھر واپسی پر ایک موڑ کاٹتے ہوئے کھمبے میں دے ماری۔ کار کا اگلا حصہ پوری طرح تباہ ہو گیا اور ڈرائیور موصوف زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا۔ مَیں جب تیمارداری کے لیے ہسپتال گیا، تو یہ نوجوان شرمندہ ہو کر کہنے لگا کہ ’’گورے ٹیسٹ ایگزامنر نسل پرست نہیں تھے۔‘‘
برطانیہ میں اب ڈرائیونگ ٹیسٹ کا معیار 90ء کی دہائی کے مقابلے میں بہت سخت ہے۔ اب پرویژنل اور فل ڈرائیونگ لائسنس پر ڈرائیور کی تصویر اور مکمل کوائف درج ہوتے ہیں۔اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کوئی تجربہ کار ڈرائیور کسی اناڑی کی جگہ ڈرائیونگ ٹیسٹ دے سکے، اور ٹیسٹ لینے والے ایگزامنر کو بھی ایک دن پہلے تک معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کس ٹیسٹ سنٹر میں جا کر ٹیسٹ لینا ہے۔ برطانیہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنا اور خصوصاً پہلی کوشش میں پاس کر لینا ایک بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ ڈرائیونگ لِسن دینے والی ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیوں اور نجی انسٹرکٹروں کا نیٹ ورک یا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ اس شعبے سے ہزاروں لوگوں کی ملازمتیں اورسالانہ کروڑوں پونڈ کا بزنس وابستہ ہے۔ ان دنوں برطانیہ میں ایک گھنٹے کے ڈرائیونگ لِسن کے لیے کم از کم 20 پونڈ چارج کئے جاتے ہیں۔ ہیوی ڈیوٹی ٹرک اور ٹرالر کے ڈرائیونگ لِسن بہت مہنگے اور اس کا ٹیسٹ پاس کرنا بھی انتہائی مشکل ہے، جب کہ برطانیہ میں کوئی بھی شخص 60 سی سی سے زیادہ بڑی موٹر سائیکل بھی ٹیسٹ پاس کیے بغیر نہیں چلا سکتا۔ اس ملک میں کسی بھی قسم کی موٹر سائیکل، کار، وین یا ٹرک اور ٹرالر چلانے کے لیے محض ڈرائیونگ لائسنس ہونا ہی کافی نہیں۔ ایم اُو ٹی اور انشورنس ہونا بھی لازمی ہے۔ ہر گاڑی کو سال میں ایک بار کسی ایم اُو ٹی سنٹر یا ورکشاپ سے ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوتا ہے، جو اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ گاڑی کسی نقص کے بغیر مزید ایک سال تک سفر کے قابل ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ دینے سے پہلے گاڑی کے ٹائر، بریکس، وائپر، لائٹس، ایگزاسٹ (دھواں چھوڑنے والا سائلنسر)، سٹیئرنگ، سائیڈ مرر، انڈی کیٹر، سیٹ بیلٹ اور دیگر چیزیں اچھی طرح چیک کی جاتی ہیں اور اگر ان میں کوئی نقص یا خرابی ہو،تو اس کو ٹھیک کر کے سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر سڑک پر کوئی گاڑی دھواں چھوڑتی ہوئی پولیس کے نوٹس میں آ جائے، یا کسی گاڑی کے ٹائر حد سے زیادہ گھسے ہوئے ہوں، تو پولیس اس ایم اُو ٹی سنٹر یا ورکشاپ سے رابطہ کرسکتی ہے، جس نے اسے سرٹیفکیٹ دیا ہوگا۔ اس طرح ڈرائیور کو جرمانے کے علاوہ اس ورکشاپ یا سنٹر کا لائسنس بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں انشورنس کے بغیر گاڑی چلانا ایک جرم ہے۔ برطانوی سڑکوں پر اگر کوئی ٹریفک ایکسیڈنٹ یا حادثہ ہوجاتا ہے، تو قصور وار ڈرائیور کی انشورنس کمپنی کو اس نقصان کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس، ایم اُو ٹی اور انشورنس یہ تین چیزیں برطانیہ میں گاڑی چلانے کے لیے لازمی بلکہ ناگزیر ہیں اور ان تینوں چیزوں کی وجہ سے برطانیہ ٹریفک حادثوں سے محفوظ رہتا ہے۔اس ملک میں کاروں اور خصوصاً سیکنڈ ہینڈ کاروں کی قیمتیں بہت مناسب ہیں۔ کم سے کم تنخواہ پر کام کرنے والا کوئی بھی کل وقتی ملازم اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے کوئی بھی مناسب سیکنڈ ہینڈ کار خرید سکتا ہے۔ برطانیہ میں اکتالیس ملین یعنی 4 کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ گاڑیاں اور تقریباً 20 ہزار ایمبولینس اور پولیس کی کاریں سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔ برطانیہ میں ڈرائیورز کی اکثریت ٹریفک کے ضابطوں اور قوانین کی سختی سے پابندی کرتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص ڈرائیونگ سیکھتا ہے، تو اسے محفوظ طریقے سے گاڑی چلانے کے طریقوں کا عادی بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساڑھے چھے کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں گذشتہ ایک سال کے دوران میں صرف 27820 ٹریفک حادثات ہوئے، جن میں 1870 لوگ موت کے منھ میں چلے گئے۔ اگر ان اعداد و شمار کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے، تو حیرانی ہوتی ہے کہ وطن عزیز کی آبادی 21 کروڑ سے زیادہ ہے جب کہ رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 2 کروڑ 36 لاکھ کے قریب ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ٹریفک حادثات رجسٹر ہوئے جن میں تقریباً 36 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور 75ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو ان ٹریفک حادثوں میں اپاہج یا معذور ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اتنے لوگ جنگوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران بم دھماکوں میں ہلاک نہیں ہوئے جتنے ٹریفک حادثوں میں مارے جا چکے ہیں، مگر آج تک کسی سیاسی یا فوجی حکومت نے اس طرف سنجیدگی سے دھیان نہیں دیا کہ پاکستان میں سڑکیں اور موٹر ویز بنانے کے ساتھ ساتھ ٹریفک حادثات کے سدباب یا روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں اور اُن ہزاروں لوگوں کی جان بچائی جائے جو ٹریفک حادثات کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں یا پھر معذور ہو جاتے ہیں۔
آپ ایک لمحے کے لیے ذرا غور کیجیے کہ اس وقت پاکستان میں جو دو کروڑ چھتیس لاکھ گاڑیاں (جن میں کاریں، ٹرک اور ہیوی ڈیوٹی ٹرالر شامل ہیں)سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ ان میں سے کتنی گاڑیوں کے ڈرائیور ایسے ہیں جنہوں نے باقاعدہ کسی ڈرائیونگ سکول سے تربیت حاصل کر کے گاڑی چلانا سیکھا ہوگا، اور پھر باقاعدہ ٹیسٹ دینے اور پاس کرنے کے بعد ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا ہوگا؟ اس طرح اگر یہ جائزہ لیا جائے کہ پاکستان میں کتنی گاڑیاں ایسی ہیں جن کی کسی ورکشاپ یا سنٹر میں ہر سال پڑتال کی جاتی ہے؟ یہ سڑکوں پر چلنے کے لیے محفوظ ہیں، ان کی بریکس، ٹائر، انجن، لائٹس، ایگزاسٹ، سائیڈ مرر، انڈی کیٹر، سٹیئرنگ وغیرہ صحیح کام کر رہے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں گاڑیوں کی انشورنس کا بھی کوئی باقاعدہ ضابطہ موجود ہے، حادثے کی صورت میں بے قصور ڈرائیور اور گاڑی کے مالک کے نقصان کا ذمہ دار کوئی نہیں ہوتا اور نہ اس نقصان کے اِزالہ کا کوئی قانون ہی موجود ہے۔ اگر کسی غریب نے قسطوں پر گاڑی خریدی ہو،تو ٹریفک حادثے کی وجہ سے اس کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ جب کوئی غیر ملکی کسی نئے ملک میں جاتا ہے، تو سب سے پہلے ہوائی اڈے کو دیکھ کر اور پھر باہر نکلنے کے بعد وہاں ٹریفک کا جائزہ لے کر کسی قوم کے مزاج اور اس کے مہذب ہونے کا اندازہ لگاتا ہے۔ آپ ذرا سوچیے کہ اگر کوئی غیر ملکی پاکستان کے صرف بڑے شہروں لاہور اور کراچی میں دو چار دن گزارے اور ان دو شہروں میں ٹریفک کی افراتفری دیکھ کر پاکستانی قوم کے مزاج اور ان کے مہذب ہونے کا جائزہ لے، تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں اس کی رائے کیا ہوگی؟
برطانیہ یا کسی اور مہذب ملک میں اگر کسی گاڑی کا ہارن بجتا ہے، تو چلتے ہوئے راہ گیر رک کر اور مڑ کر دیکھتے ہیں کہ ڈرائیور نے کیوں ہارن بجایا ہے، یہاں بعض اوقات گاڑی چلانے والوں کو کئی کئی ہفتوں کے بعد کسی دوسری گاڑی کا ہارن سننے کو ملتا ہے۔ ٹریفک کا نظام قوموں کے مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ان کی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ حکومتوں کے لیے بہت سے کرنے کے کام ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے کثیر وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کسی ڈیم کی تعمیر یا میٹرو بس سروس کا منصوبہ وغیرہ، مگر بہت سے کام ایسے ہیں جن کے لیے کسی حکومت کو کسی قسم کے اضافی وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف ضابطے اور قانون پر عمل درآمد کو سو فیصد یقینی بنانے سے معاملات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کو روکنے کے لیے اگر موجودہ حکومت ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کو سو فیصد ڈرائیونگ ٹیسٹ سے مشروط کر دے، گاڑیوں کی ایم اُو ٹی اور انشورنس کو لازمی قرار دے دے، تو اس کے لیے اسے کسی طرح کے اضافی وسائل کی ضرورت نہیں ہوگی۔ صرف اور صرف ضابطے اور قانون پر سو فیصد عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ ایسا کرنے سے نہ صرف رفتہ رفتہ ٹریفک حادثات اور قیمتی جانوں کے ضائع ہونے میں کمی آئے گی، بلکہ ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ کیوں کہ ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے لوگ ڈرائیونگ سکول کا رُخ کریں گے، تاکہ گاڑی چلانا سیکھ سکیں۔ اس طرح پاکستان میں برطانیہ کی طرح ڈرائیونگ سکولز کا نیٹ ورک ایک بزنس کے طور پر پھیل سکتا ہے، جہاں ہزاروں لوگوں کو روزگارمیسر آسکتا ہے۔
اسی طرح سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی سالانہ ایم اُو ٹی کے لیے باقاعدہ سنٹر یا ورکشاپس بنائی جانی چاہئیں جو ان کو سال بھر کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کریں۔ ایسے سنٹر اور ورکشاپس بننے سے نہ صرف ہنرمند موٹر میکینکس کی تربیت ہو گی بلکہ ان کی ملازمتوں کے لیے گنجائش پیدا ہوگی۔ اس طرح گاڑیوں کی انشورنس کے نظام کو فعال اور مؤثر بنانے سے انشورنس سیکٹر میں مزید سرمایہ کاری ہو گی اور نئی ملازمتوں کا دروازہ کھلے گا، مگر یہ سب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی ترجیحات درست ہوں۔ اگر حکومت کی ترجیح واقعی ٹریفک حادثات سے ہر سال ضائع ہونے والی ہزاروں جانوں کو بچانا اور پاکستان کی شاہراہوں کو محفوظ بنانا ہے، تو اسے میرے تحریر کردہ اعداد و شمار اور موازنے پر غور کرنا چاہیے اور اگر اس حکومت کا مقصد بھی پہلی حکومتوں کی طرح پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ صرف سیاست کرنا اور قوم کو سبز باغ دکھانا ہے۔ تو پھر اس کا انجام بھی پہلی حکومتوں سے مختلف نہیں ہوگا، جنہیں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے منصوبے یاد آتے ہیں۔ ویسے کسی نے کہا تھا کہ غافل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے، جب بند ہونے کے قریب ہوتی ہے۔
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔