جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، ہماری زندگی میں کوئی ایسا الیکشن نہیں ہوا جسے لوگ صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کہیں۔ اور یہ کہ الیکشن کے بعد ہارنے والے نے اپنی پریس کانفرنس میں ہار تسلیم کرتے ہوئے جیتنے والے کو مبارک باد دی ہو۔ الیکشن کے نتائج آتے ہی ہارنے والے رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں کہ ہائے مارے گئے، دھاندلی ہوگئی اور عوامی مینڈیٹ کو چوری کیا گیا۔ رونے دھونے کے باوجود پاکستان کے کسی بھی سیاسی پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کو روکنے کے لیے کوئی قانون سازی کی اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔
حزبِ اختلاف والوں کا فائدہ تو اسی میں ہے۔ کیوں کہ وہ منتخب حکومت کو مدت پوری ہونے سے پہلے گھر بھیجنا چاہتے ہیں اور دھاندلی کے نام پر احتجاجی سیاست کرتے ہوئے حکومت کو عوامی فلاح و بہود کا کوئی کام کرنے نہیں دیتے۔
قومی الیکشن 2018ء کے انتخابی نتائج آج تک حزبِ اختلاف کی جماعتیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے خیال میں عوامی مینڈیٹ کو چوری کیا گیا ہے، اور موجودہ وزیر اعظم منتخب شدہ نہیں جعلی ہے۔ نتائج کے آتے ہی اپوزیشن نے حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے، اور تاحال جاری ہے۔
گلگت بلتستان کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاؤل زرداری، پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے وزرا نے بھر پور الیکشن مہم چلائی۔ تینوں پارٹیاں گلگت بلتستان کے الیکشن میں کامیابی کے دعوے کرتے رہے۔ تینوں پارٹیوں نے عوام کو ایک بار پھر سبز باغ دکھا کر ورغلانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں عوام اور پاکستانی اداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاؤل زرداری نے اپنے ایک انٹریو میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر میاں محمد نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ طے ہوا کہ جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی جائے گی، لیکن کسی پر ذاتی الزام نہیں لگایا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں جب میاں محمد نواز شریف نے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں پر الزامات لگائے، تو انھیں دھچکا لگا۔ مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز پیپلز پارٹی سے کیسے پیچھے رہ سکتی تھی۔ اس نے بھی گلگت بلتستان کے عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے ایک انٹریو میں اپنے والد میاں محمد نواز شریف کے بیانیے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں، جس کے لیے موجودہ حکومت کو گھر بھیجنا ہوگا۔
سوشل میڈیا پر جب دونوں پر تنقید ہونے لگی، تو دونوں اپنے اپنے انٹریوز کے لیے تاویلات پیش کرنے لگے، اور ان کے مرکزی رہنما بھی ان کی صفائیاں پیش کرتے رہے کہ بلاؤل زرداری اور مریم نواز کے انٹریوز کا مقصد یہ تھا، وہ بالکل نہیں تھا، جو لوگ سمجھ رہے ہیں۔
تحریکِ انصاف نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دونوں پر تنقید کے نشتر برسائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تینوں جماعتوں کے جلسوں میں لوگ کافی تعداد میں آتے رہے، اور تینوں پارٹیوں کے رہنما یہ سمجھتے رہے کہ ان کی جیت یقینی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ جلسے میں آئے ہوئے سب کے سب اُسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جس کے جلسے میں وہ آئے ہوئے ہیں۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاؤل زرداری اور پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز انتخابی مہم کے دوران حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاتے رہے۔
اب تک گلگت بلتستان کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے آٹھ، پاکستان پیپلز پارٹی تین اور پاکستان مسلم نون نے دو نشستیں حاصل کی ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں سیاسی جماعتوں نے حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگانے شروع کیے ہیں، اگرچہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ ثبوت نہیں۔
مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کے لیڈر نے اپنے پریس کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی پر الزامات لگائے۔ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما احسن اقبال بھی موجود تھے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن کمشنر بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ ہے، تو میرے پاس آجائیں، مگر اس کے پاس کوئی نہیں جا رہا۔ کیوں کہ وہاں جانے پر دھاندلی کے ثبوت پیش کرنا پڑیں گے، جو کسی بھی پارٹی کے پاس ہے نہیں۔ ایبٹ آباد جلسے میں مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کو لانے والوں نے گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کو آٹھ نشستیں خیرات میں دی ہیں اور انھیں گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے لیے بیساکھیوں کا محتاج بنا دیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جب مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، تو گلگت بلتستان کے عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا، جب پاکستان مسلم نون کی حکومت آئی، تو انھوں نے مسلم لیگ نون کو کامیاب کیا اور اب جب کہ مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکوت ہے، تو عوام نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پر پاکستان تحریک انصاف کو ترجیح دیتے ہوئے ووٹ دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی خاتون رہنما ناز بلوچ نے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں انہی خیالات کا اظہا ر کیا کہ مرکز میں جس کی حکومت ہوتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام اُسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں اور مذکورہ خاتون رہنما نے جو کچھ کہا وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی مجبوری ہے۔ کشمیر اور بلتستان کے عوام ہر وقت اسلام آباد کے محتاج رہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں، تو دونوں کو حکومت چلانے اور ترقیاتی کام کرنے میں ڈھیر ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون یہ حقیقت جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ الیکشن میں الزامات امریکہ میں بھی لگتے رہے ہیں، لیکن وہاں پر اپوزیشن والے پھر بھی ہار تسلیم کرلیتے ہیں، جس طرح امریکہ کے حالیہ الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جوبائیڈن پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے ساتھ عدالت جانے کا بھی اعلان کیا تھا، لیکن آخرِکار ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔
پی پی پی اور ن لیگ، حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگانے سے گریز کریں اور پارلیمنٹ میں دھاندلی روکنے کے لیے قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دیں۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔