انسان کی فطرت میں بہت ساری چیزیں خالقِ کائنات نے ودیعت کی ہیں، تبھی تو اسے شاہکار تخلیق کہا جاتا ہے۔ اسے ’’لقد کرمنا‘‘ کی سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا ہے۔ کیوں کہ متضاد تقاضے ہوں اور ان میں ایک کا انتخاب کرنا ہو اور بندہ خیر کا انتخاب کرکے شر کو دفع کرے، تو یہی اس کو مکرم بنادیتا ہے۔
ہر زندہ شے میں خوف ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جان کا خوف، اور خوف ہی محبت پیدا کرتا ہے۔ خوف نہ ہو تو اپنے آپ سے محبت کیسے ہو؟ اور پھر یہی محبت دفاع اور تحفظ پر اکساتی ہے۔ پھر وہ بساط بھر کوشش کرتا ہے کہ مقابلہ سے بچ سکتا ہو یا کہ حیلہ سے، جس میں کہ فراربھی شامل ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کی خودپسندی کابھی ذریعہ یا سبب ہے ۔
اب خود پسندی ایک فطری امر ہے، تو فطرت کو ختم تو نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ خود پسندی کا کوئی ٹھوس سبب بھی ہونا چاہیے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کسی کی خودپسندی اوروں کو حقیر سمجھنے پر بھی باعث نہ ہو۔ یہی فطری کمزوری ہی انسانی نفس میں ہے جو شیطان کے بہکاوے کے لئے سبب بنتی ہے۔ ورنہ کمزوریاں نہ ہوں، تو شیطان بندے کو کیسے بہکاوے ؟
مثلاً انسان میں شہوت نہ ہو، تو شیطان اسے زناکاری پر کیسے اکسائے؟ اگر اس میں حرصِ مال نہ ہو، تو وہ اسے کرپشن، بدعنوانی، چوری چکاری او ر فریب و دغابازی میں کیسے لگائے گا ؟ تو اگر فطرت میں خودپسندی نہ ہو، تو شیطان اسے اس پر کیسے اکسائے گا؟
لیکن شیطان کب اسے مذموم خودپسندی پر اکساتا ہے، جب وہ نفس پر قابونہ رکھ سکے۔ اسے ڈھیلا چھوڑ دے، تو شیطان اس کو فریب میں مبتلا کردیتا ہے کہ آپ تو ایک خاص مخلوق ہیں، جو کچھ تمہاری ذات میں ہے، وہ کسی اور میں کاہے کو ہے۔ یوں وہ خود پسندی کا شکار تو کیا اس کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کا نفس اس پر سوار ہوکر اس کی آزادی سلب کردیتا ہے، پھر وہ نفس کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ نفسِ انسانی یہی شیطان کا داخلی جاسوس ہے، جو اسے اس کی کمزوریوں کی نشان دہی کرتارہتا ہے کہ اس پر اس ناحیے اور اس زاویے سے حملہ کرنا۔
انسان حواسِ خمسہ کے ذریعے ارادتاً یا اتفاقاً جو کچھ بھی ادراک کرتا ہے، اس کا ذہن تحت الشعوری یا لاشعوری انداز سے اس سے اثر لیتا ہے۔ یہ اثرات وہاں نقش ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف اوقات میں کسی فرد کی فکری ساخت میں تبدیلی آتی ہے۔ کیوں کہ یہی اثرات وافکار آپس میں مل کر کچھ نئے تانے بانے بناتی ہیں۔ پانی میں چینی خلط ہو، تو مٹھاس اور دودھ ملے، تو لسّی اور اس کو جوش دے کر اس میں پتی ڈالیں تو چائے۔ ان مختلف صورتوں میں ان سب کا مزاج اور پھر بدن پر اثر بھی مختلف ہوتا ہے۔یہی معاملہ اثرات اور افکار کا بھی ہے۔
تو خودپسندی فطرت میں موجود ایک چیز ہے اور فطرت میں موجود چیزیں پھلتی پھولتی ہیں اور جس جس کی زیادہ آب یاری ومالیاری کی جائے، تو وہ چیز تناور درخت بن جاتی ہے، اور ان میں اگر ایک تناور بنے اور باقی کمزور تو یہ ان دیگران کو کمزور کردیتی ہے۔
اب خودپسندی تناور ہے، تو انسان جو فطری طور پر سماجی ہے، وہ ذات کے خول میں بند ہوجاتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے وہ اوروں سے کٹ جاتا ہے یا کم از کم اوروں سے اس کے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے کہ اب اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’مسٹر پرفیکٹ‘‘ بن گئے اور ’’اسپیشل‘‘ بن گئے ہیں، یا قدسی صفات بن چکے ہیں، تو اوروں سے میل ملاپ کیوں کرے!
لوگوں کی اکثریت کی خودپسندی کی کوئی ٹھوس بنیادبھی نہیں ہوتی، یعنی ان کی کوئی صلاحیت بھی ایسی نہیں ہوتی جو ان کو کم ازکم اس صلاحیت کی حد تک سپیشل بناتی ہو، البتہ ان کویہ زعم ہوجاتا ہے۔ جب کہ بعض اوقات کی صلاحیت بھی باعثِ خودپسندی ہوتی ہے کہ خود پسندی تو فطرت بھی ہے اور جب صلاحیت آگئی، تو اس نے تو بندے کو تحریک دی، لیکن اگر یہ چیز اس کے دل ودماغ پر سوار ہوگئی، تو یہ پھر تباہی ہے۔ ایسا بندہ پھر اقوال میں بھی اور افعال و حرکات میں بھی اس کا اظہار کرتار ہتا ہے اور جب یہ چیز اس کے ذہن میں ایک خنّاس بن کر بیٹھ جائے، تو پھر تو اللہ کی پناہ! پھر تو وہ کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں بلکہ وہ اوروں کی تحقیر و تذلیل پر اتر آتا ہے۔ اب اگر اس کی کوئی معاشرتی، معاشی یا سیاسی وغیرہ حیثیت نہ ہو، تو وہ اوروں کے لیے تماشا بن جاتا ہے، اور اس کے آتے ہی لوگ کہتے ہیں کہ لو جی یہ آگئے ہمارے فلاسفر صاحب، یا ہمارے سقراط صاحب۔ لیکن اس کو اس تمسخر کا بھی احساس نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس کے حواس پر پردہ پڑچکا ہے۔
اگر اس کی کوئی حیثیت ہو جس کی وجہ سے لوگ ایسا نہیں کرسکتے، تو پھر خدا خود اس کو ذلیل و رسوا کرجاتا ہے کہ یہ عمل اللہ کو پسند نہیں۔
خود پسند بندہ پھر سیکھنے سے رہ جاتا ہے، کہ دماغ میں بیٹھا خنّاس اس کو نہیں چھوڑتا کہ کسی کو سنے یا کسی سے پوچھے، تو سیکھے گا کہاں سے اور کیسے ؟چوں کہ وہ معاشرہ سے کٹا ہوا ہوتا ہے، تو کسی سے اعانت بھی نہیں لے سکتا۔ حالاں کہ انسانی دنیا اللہ نے تشکیل ایسی دی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کام آئیں۔ معاشرہ اشتراک عمل سے چلتا ہے۔ ایسا بندہ کبھی کسی کے کسی بھی کمال کا اعتراف نہیں کرتا کہ ایسا کرنے سے اس کے دماغ میں بیٹھا خنّاس اسے روکتا رہتا ہے اور ایسے اعتراف سے وہ سمجھتا ہے کہ میری شان میں کمی آئے گی اور یہ اس کے لیے خود کشی سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔
ٍٍ حاصلِ نشست:۔ خودپسندی کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص اپنے کو سب سے زیادہ اہم سمجھتا ہے۔ یہ ایک تصور ہے جو وہ اپنائے ہوتا ہے، جب کہ ’’اہمیت‘‘ صلاحیت، محنت، اخلاص اور اس اساس پر کامیابی حاصل کرنے سے آتی ہے۔سو خود پسندی کی تہذیب ضروری ہے۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔