بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ نے جہاں ملک کو کھربوں روپوں کے نقصانات سے دوچار کیا اور ایک طرف عوام کے دلوں سے حکومت کے وقار کا خاتمہ کردیا ہے، تو دوسری طرف ان کو شدید ذہنی عوارض میں بھی مبتلا کردیاہے۔ دورِ جدید میں زندگی کے ہر شعبے میں بجلی کی قوت کا عمل دخل ہے۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں بجلی استعمال نہ ہوتی ہو۔ پھر پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہو اور عام لوگ قتل اور زنا باالجبر کے فیصلے خود کرتے ہوں، وہاں عام معاملات میں وہ حکومتی اتھارٹی کو کیسے خاطر میں لاتے ہوں گے؟ کسی پشتو فلم ڈائیلاگ میں یوں الفاظ تھے کہ جب پولیس نے مجرم سے پوچھا تیرے پاس بندوق کا لائسنس ہے؟ تو مجرم جواب دیتا ہے: ’’لائسنس اس کی نلی (یا منھ) میں ہے۔‘‘ اگر ہم اِدھر اُدھر احتیاط سے دیکھیں، تو تقریباً ہر چھوٹا بڑا آدمی قانون سے اپنے آپ کو ایسے آزاد سمجھتا ہے جیسے کہ وہ کسی مہذب معاشرے کا فرد ہی نہیں۔ اس کی بڑی وجہ انتظامی عہدوں پر ناموزوں افراد کا قبضہ ہے۔ یہ مسئلہ پورے ملک میں ہر چھوٹی بڑی کرسی کا ہے۔ مغربی جمہوری نظام میں جمہوریت کے نام پر جو افراد حکمرانی کے لیے منتخب کروائے جاتے ہیں، ایک طرف وہ اکثریت کے نہیں بلکہ اقلیت کے نمائندے ہوتے ہیں اور دوسری طرف اُن کی صلاحیتیں حکمرانی کے لیے کم اور سیاسی فریب کاری اور جھوٹ کے لیے زیادہ ہوتی ہیں۔ سیاسی لوگوں میں یہ کمزوریاں ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتی ہیں لیکن وہاں اعلیٰ بیوروکریسی سیاسی حکمرانوں کو مدد دینے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں بیوروکریٹس کی جگہ دوسرے لوگ براجمان ہیں اور خراب انتظامی صورت حال اور کرپشن، وطنِ عزیز میں خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔

اگر ہم اِدھر اُدھر احتیاط سے دیکھیں، تو تقریباً ہر چھوٹا بڑا آدمی قانون سے اپنے آپ کو ایسے آزاد سمجھتا ہے جیسے کہ وہ کسی مہذب معاشرے کا فرد ہی نہیں۔ اس کی بڑی وجہ انتظامی عہدوں پر ناموزوں افراد کا قبضہ ہے۔

بجلی بے شک کم ہوگی لیکن ہمارے یہاں اس کی چوری اور ویسے ضیاع بھی بہت زیادہ ہے۔ حکومت بھی بجلی کے شعبے کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ اس محکمے پر کئی دفعہ مردہ گھوڑوں کو لا بٹھایا گیا، جن کی ترجیحات شعبۂ برق ترقی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر حکومت میں خود کئی وجوہ کی بنا پر عمدہ قوتِ حکمرانی نہیں۔ آج تک کسی بھی حکومت نے ائیرکنڈیشنوں کی بھرمار اور بے تحاشا استعمال کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ اپنے ریڈیو پر ٹیکس دیتے تھے، خواہ وہ بیٹری والا کیوں نہ ہو۔ ٹی وی کا لائسنس کل تک رائج تھا۔ اب کسی کے ہاں بہت سارے ایرکنڈیشن مشینیں کیوں نہ ہوں، وہ ہر پوچھ سے مبرا ہے۔ فریج اور ڈیپ فریزر عام ہیں۔ پاکستان میں بجلی سے چلنی والی دوسری اشیا قدیم معیار کی اور زیادہ بجلی صرف کرنے والی ہیں۔ مارکیٹ بہت طاقتور اور حکومت نہایت کمزور، الراشی والمرتشی سفارش اور اقربا پروری کا ماحول، حکومت کو یہ جرأت نہیں کہ وہ وطن عزیز میں بجلی سے چلنے والی بے شمار اشیا کو کنٹرول کرسکے۔ جو کام کل ہاتھ سے کئے جاتے تھے، وہ آج بجلی سے ہورہے ہیں۔ خواہ وہ حجام کی قینچی ہو یا رہٹ۔ ان کے علاوہ بجلی کمپنیوں کے اندر اور اُن کے تعاون سے بعض صارفین میں بہت بڑے پیمانے پر بجلی چور موجود ہیں۔ بعض طاقتور سرکاری اداروں سے جن سے بجلی والا عملہ ڈرتا ہے یا اُن کے ساتھ دوستی بہتر سمجھتا ہے وصولیاں نہیں ہوتیں۔ یہ تمام چوریاں اور سینہ زوریاں حلال خور عوام سے وصول کی جاتی ہیں۔ اگر حکومت کبھی اصلاحِ احوال کی کوشش کرتی بھی ہے، تو مزدوروں کے نام پر بلیک میلر یونینیں اُسے ناکام بنا دیتی ہیں۔ پچھلے سالوں میں محکمہ بجلی کے نام نہاد ’’مزدوروں‘‘ نے سڑکوں پر آکر مظاہرے کئے تھے۔ میڈیا میں اُن کی تصاویر میں ہم لوگوں نے دیکھا کہ سب کے سب بہت موٹے تازے تھے۔ اچھے لباس میں تھے۔ ہماری خواہش ہوئی کہ پاکستان کے سارے مزدور کسان اور ملازمین ان کی طرح موٹے تازے، خوش لباس اور خوش حال ہوں۔ دیگر مزدوروں کی توپسلیاں گنی جاتی ہیں۔ اُن کے پیٹ میں کھانا ہوتا ہے اور نہ بدن پر مناسب لباس۔

آج تک کسی بھی حکومت نے ائیرکنڈیشنوں کی بھرمار اور بے تحاشا استعمال کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ اپنے ریڈیو پر ٹیکس دیتے تھے، خواہ وہ بیٹری والا کیوں نہ ہو۔ ٹی وی کا لائسنس کل تک رائج تھا۔ اب کسی کے ہاں بہت سارے ایرکنڈیشن مشینیں کیوں نہ ہوں، وہ ہر پوچھ سے مبرا ہے۔ فریج اور ڈیپ فریزر عام ہیں۔ پاکستان میں بجلی سے چلنی والی دوسری اشیا قدیم معیار کی اور زیادہ بجلی صرف کرنے والی ہیں۔

محکمہ بجلی زیادہ تر انجینئروں اور اکاؤنٹینٹوں کے ماتحت چلا آ رہا ہے۔ یہ لوگ انتظامی قابیلتوں کے نہیں اپنی پیشہ ورانہ قابلیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ کسی بھی مجرم کو سزا نہیں دے سکتے بلکہ ایف سی آر جیسے کالے قانون کی طرح برے لوگوں کی جرائم کی سزا شریف عوام کو دیتے ہیں۔ غالباً وزیراعظم یا وزیر بجلی کے یہ ارشادات ہیں کہ جو علاقے بجلی کے بل نہیں دیتے، اُن کو بجلی نہیں ملے گی۔ یہ نالائقی اور خراب حکمرانی کی حد ہے۔ ایسا تو خدا بھی نہیں کرتا۔ اگر ایک ہزار گھروں میں دس گھر بل نہیں دیتے، تو ہمارے حکمران نو سو نوے گھروں کو اپنی نالائقی اور نا اہلیت کا نشانہ بناتے ہیں۔ دراصل حکمرانی گلی کوچوں سے اٹھائے گئے کوڑے کرکٹ کا کام نہیں ہوتا۔ چھوٹے لوگ ہمیشہ برائی کے ساتھ بن جاتے ہیں، وہ برائی کو جڑ سے اکھاڑ نہیں سکتے۔ بہتر ہوگا کہ ہر ڈپٹی کمشنر کو اضافی عملہ اور مشاہیرہ (اکسٹراڈیوٹی الاؤنس) دے کر اُن سے واپڈا والوں اور دوسرے لوگوں کا جو بجلی چراتے ہیں یا ضائع کرتے ہیں، پر نگران مقرر کیا جائے جو مجرم کو فوری طور پر جیل میں ڈالا کریں۔ اس کے ساتھ بجلی و گیس اور پانی وغیرہ کے حوالے سے پارلیمنٹ زیادہ موزوں اور محتاط قانون سازی کرے۔ لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ والے خود بجلی چور بتائے جاتے ہیں۔ سنا جاتا ہے کہ محکمہ بجلی کو دشمن ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور یہاں کے عوام کو خانہ جنگی میں مبتلا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مارکیٹ بہر حال بجلی کے بحران کو پسند کرے گا کہ اُسے سمگلنگ اور درآمدات کے ذریعے منافع حاصل ہو۔

وزیراعظم یا وزیر بجلی کے یہ ارشادات ہیں کہ جو علاقے بجلی کے بل نہیں دیتے، اُن کو بجلی نہیں ملے گی۔ یہ نالائقی اور خراب حکمرانی کی حد ہے۔ ایسا تو خدا بھی نہیں کرتا۔ اگر ایک ہزار گھروں میں دس گھر بل نہیں دیتے، تو ہمارے حکمران نو سو نوے گھروں کو اپنی نالائقی اور نا اہلیت کا نشانہ بناتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ عوام کا بے قابو سیلاب حرام خوروں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کرے، حکومتی اداروں کو آپریشن رد الفساد کے تحت سخت ترین کارروائی حرام خوروں کے خلاف اس انداز سے کرنی چاہئے کہ شریف عوام مشکل سے بچے رہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ چند حرام خوروں کے لیے پوری قوم کو سزا دی جاتی ہے۔ مولانا لوگ بھی عوام کو بتائیں کہ حرام پانی سے وضو اور حرام بجلی میں عبادت حلال پانی اور حلال بجلی کے برابر نہیں ہوتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ:۔ لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والے بحث و مباحثہ سے متفق ہونا ضروری نہیں)