مملکت میں روز بروز ابتری بڑھتی جارہی ہے اور سائنس کے فراہم کردہ تصور کہ ’’مائعات اپنی سطح ہموار رکھتی ہیں‘‘کی طرح یہ ابتری بھی اپنی سطح ہموار رکھتی ہے۔یعنی یہ ابتری ہر فیلڈ، ہرمیدان اور ہر شعبے میں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم سارے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ ابتری ہم سب کو متاثر کرچکی ہے۔اس سے حاکم محفوظ ہے اور نہ رعایا، استاد نہ شاگرد،پیر نہ مرید، فرد نہ ادارہ ۔اور جب ابتری ایسی ہو، تو پھر تو بربادی ہی مقدر ہوتی ہے۔ الا آں کہ اللہ تعالیٰ بچائے رکھے۔
اب یہ ابتری کیوں پھیلی؟ اس لیے کہ قانون کی عمل داری نہیں۔
عام طور پر قوانین جو بھی ہوں، وہ عموماً اچھی نیت سے ملک و قوم کی بہتری کے لیے بنائے جاتے ہیں، لیکن قانون کوئی جادو ہے اور نہ منتر کہ اسے استعمال کیے بغیر کچھ فائدہ ہوگا۔ جس طرح کوئی دوا کسی مرض یا مریض کے لیے اگر تریاق بھی ہے، تو جب تک اس کو استعمال نہیں کیا جائے گا، شیشی میں رکھی ہوئی دوا کا تو کوئی اثر اور فائدہ نہ ہوگا۔
قانون کی حکمرانی اور عمل داری کے لیے یہ ضروری ہے کہ اربابِ اختیار، بلا امتیاز اور بلا تحفظ ا س کا نفاذ کریں۔ چاہے اس کی زد اس پر خود ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
ٍ تاریخ میں ثابت ہے کہ مغل حکمران جب قانون کی عمل داری کے حوالے سے کمزور ہوگئے، تو پھر وہ حکومت کو برقرار نہ رکھ سکے۔ کیوں کہ ایسے میں داخلی طور پر خلفشار اور اضطراب اور بعد ازاں بغاوت پیدا ہوتی ہے، اور اس کیفیت کو خارجی قوتیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
قانون کی صحیح عمل داری عمل میں نہ لاکے حکمران اور اربابِ اختیار نہ صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلاتے ہیں، بلکہ وہ ملک اور قوم سب پر کلہاڑا چلا لیتے ہیں اور یوں ہندوستان تقریباً دو سو سال تک کے لیے انگریزوں کی غلامی میں چلا گیا۔ یہ صحیح ہے کہ انگریزوں نے بہت کچھ لوٹا۔ سب سے بڑھ کر ہماری آزادی اور حریت کو لوٹا۔ ہمارے اخلاق و اقدار پر مرئی اور غیر مرئی ضرب لگائے۔ انہوں نے مال و متاع بھی لوٹا حتی کہ نوادرات لوٹنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ البتہ وہ آئے تو تھے حکمرانی کے لیے لہٰذا انہوں نے ہندوستان بھر میں تعمیرات بھی کیے، سڑکیں بھی بنوائیں، پل بنوائے، ریلوے لائن بچھائی، کچھ سکول اور ہسپتال بنوائے، کچھ انفراسٹرکچر بھی دیا اور ساتھ ساتھ ایک قانون اور نظام بھی دیا۔ انہوں نے لوٹا بھی لیکن اس بے دردی اور اور بے حیائی سے نہیں جیسا کہ آج ہم لوٹ رہے ہیں۔ یہ ا س لیے کہ ان کے ہاں ان کے اپنے قانون کی کافی عمل داری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی جو انسان کی فطرت میں ہے اور وہ تو کہتے ہیں کہ غلامی تو باپ کی بھی اچھی نہیں۔ لیکن آج حالات کی ابتری کی سطح یہ ہے کہ بہت سارے لوگ عدل وانصاف سے اتنے ناامید ہوچکے ہیں کہ وہ برملا کہہ جاتے ہیں کہ ا س سے تو فرنگیوں کا دور اچھا تھا کہ اس میں ان بے سہاروں کے اوپر اس قسم کا ظلم تو نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے خیال میں اس سے آگے کی اور کوئی تعبیر تو نہیں ہوسکتی۔ یہ تو یاس و قنوط اور ناامیدی کی انتہائی تعبیر ہے۔ تو اب بھی اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہمیں تو افسوس ہوتا ہے بزعم خویش پارساؤں پر کہ ان کے کسی عمل پر تحفظ کا اظہار کیا جائے کہ ان کی قدوسیت کی وجہ سے ان پر اعتراض کا تو تصور نہیں ہوسکتا کہ اولاً تو آپ کو ایمان سے محروم کروایا جائے گا کہ تم ملحد ہو، زندیق ہو اور بات اگر آگے بڑھی، تو شاید جان سے بھی چلے جاؤ گے۔
مولانائے روم رحمۃ اللہ نے تو یارِ بد کے لیے کہا تھا کہ ’’یار بد بر جان وبر ایمان زند!‘‘ لیکن ہم معذرتاً اس سے اس کا تصور مستعار لے لیتے ہیں کہ بزعمِ خویش قدسی صفات حضرات تمہارا وہ حشر کردیں گے جو یارِ بد کرتا ہے۔ یہ بیانیہ بداخلاقی کا بدترین بیانیہ ہے کہ سب ایسا کررہے ہیں۔ ہم کہتے تو یہ ہیں کہ اسلام قانون سے پہلے اخلاقیات کا درس دیتا ہے کہ ہر بندہ خود اپنا جج، قاضی اور محتسب بنے کہ کسی قانون اور عدالت کی ہی ضرورت نہ پڑے، لیکن جب کرتے ہیں اور تحفظ آتا ہے، تو فوراً کہتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی بلکہ صاحبِ اختیار نے "Discretionary Power” استعمال کرکے ہمارے لیے ایسا کیا۔ اب اس لفظ کا لغوی ترجمہ ہے: ’’متروک الحکمۃ‘‘ تو کیا ایک خدا ترس بندہ جو خود کو قدسی صفات سمجھتا ہو، وہ خود متروک الحکمۃ کام کرے گا، یا کسی اور کے ایسے اختیارات سے دنیوی مفاد لینے کی کوشش کرے گا؟
خیر ہم کن جھمیلوں میں پڑگئے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’اربابِ اختیار و دین رخصتوں میں پڑیں، تو عوام مکروہات میں پڑیں گے اور اربابِ اختیار ودین مکروہات میں پڑیں، تو عوام محرمات میں پڑیں گے اور اربابِ اختیار ودین محرمات میں پڑیں گے، تو عوام مشرک ہوجائیں گے ۔
ہم کہتے رہتے ہیں کہ نظام گل سڑگیا، نظام ناکام ہوا۔ سو نظام سے مراد اگر انگریز کا قانون ہے، تو ان کے دور میں تو یہ ایسا ناکام نہیں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ نظام رہا نہیں، نہ اس پر عمل رہا بلکہ ہم نے تو ان کے قوانین کا بھی سوا ستیاناس کردیا اور اپنا کچھ تو بنایا نہ اس پر عمل کیا، تو بلا اور وبا سارے کا سارا بے عملی بلکہ بدعملی کا ہے کہ بے عملی کا منفی اثر تو دھیرے دھیرے پڑتا ہے، جب کہ بدعملی کا اثر تو فوراً اور تیز بارش کی طرح پڑتا ہے جس میں سب کچھ بھیگ تو کیا جاتا ہے، اس میں غریبوں کے گروندے ملیامیٹ ہوجاتے ہیں اور نتیجہ سامنے ہے ۔سو نظام نہ بدلیں،دینی بدعملی چھوڑیں اور سب نظام پر عمل شروع کریں۔ کچھ زیادہ بہتری نہ بھی ہو، تو انگریزوں کے دور جیسے حالات تو آسکتے ہیں۔ ان کو تو ہم قبول نہیں کرتے تھے کہ وہ بدیشی تھے اور ہم غلام تھے اب کے تو حکمران اپنے ہونگے تو ہمیں زیادہ کوفت نہیں محسوس ہوگی بلکہ خوشی ہوگی۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔