ملالہ یوسف زئی نامی بارہ تیرہ سالہ بچی مبینہ طور پر اپنی ڈائری کے سرورق میں لکھتی ہے کہ ”مجھے برقعہ دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آجاتا تھا اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون کا زمانہ۔ میں نے اپنا پسندیدہ گلابی رنگ کا لباس پہننے کے لئے نکالا۔ دیگر لڑکیاں بھی رنگ برنگے لباس پہن کر آتی تھیں اور اسکول گھر کے ماحول جیسا لگتا تھا۔”
یہ تحریر مجھے انٹرنیٹ پر گھومتی ہوئی نظر آئی اور اس میں مُلاوں کی داڑھی اور برقعے پر بارہ تیرہ سالہ لڑکی کے اپنی ڈائری پر لکھے خیالات کو نشانہ بنا کر اس لڑکی کو کافر اور امریکی ایجنٹ قرار دیا جا چکا تھا۔ جی ہاں "کافر”  اور "امریکی ایجنٹ”۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی بلکہ ملک کے دو بڑے جرنیلوں کی بڑی یاد آئی۔ ایک جناب مولوی تھے دوسرے انتہا کے لبرل۔ وہ دن بہت یاد آیا جب مولوی صاحب نے افغان سرزمین پر امریکی ڈالروں کے عوض روس سے مقابلے کے لئے مجاہدین کو اپنی ہی سرزمین پر جنم دیا اور وہ دن جب امریکہ ہی کے فیصلے پر ہمارے لبرل جرنیل نے ان کو کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔ دوسری والی وہ جنگ ہے جو آج لاکھوں جانیں لینے کے بعد بھی جاری ہے۔ یہ تو المیہ ہے ہی مگر اس سے بڑا المیہ جو ہماری سوچوں کے ساتھ رونما ہوا وہ قابل غور ہے۔
پختونخوا اسمبلی میں کچھ عرصہ پہلے ایک قرارداد لائی گئی تھی جس میں ملالہ کے نام سے یونیورسٹی قائم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس قرارداد کا مقصد ملالہ کو ملک میں تعلیم کے فروغ میں کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنا بھی تھا اور یونیورسٹی کا قائم ہونا تو خود ایک اچھا عمل ہے۔ افسوس کہ اس قرارداد کو اسمبلی سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس اقدام کے پیچھے جو سوچ ہے وہ ایک پورا مائنڈ سیٹ ہے جسے انفرادی طور پر بیج کی طرح بویا گیا تھا اور وہ آج پورا درخت بن گیا ہے۔
اسمبلی کے اس ردعمل سے مجھے طالبان کی حامی اور مخالف دو سوچوں کا وجود اور واضح ہو کر نظر آیا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ سوچ کی یہ تقسیم آج پہلے سے بڑھ کر غالب ہے۔ طالبان حمائتی گروپ اس چیز پر بضد ہے کہ طالبان کا عمل ہزار غلط مگر ان کا نظریہ کہیں نہ کہیں ان کی رہنمائی کرتا نظر آتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا عمل شروع سے ہی ان کے نظریے کے پیچھے پناہ لئے ہوئے ہے جس کی بنیاد پر ہم آج بھی طالبان کے مقاصد کو صحیح جان کر ان کی برملا نہیں مگر کہیں نہ کہیں حمایت ضرور کرتے نظر آتے ہیں۔

پختونخوا اسمبلی میں کچھ عرصہ پہلے ایک قرارداد لائی گئی تھی جس میں ملالہ کے نام سے یونیورسٹی قائم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس قرارداد کا مقصد ملالہ کو ملک میں تعلیم کے فروغ میں کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنا بھی تھا اور یونیورسٹی کا قائم ہونا تو خود ایک اچھا عمل ہے۔ افسوس کہ اس قرارداد کو اسمبلی سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس اقدام کے پیچھے جو سوچ ہے وہ ایک پورا مائنڈ سیٹ ہے جسے انفرادی طور پر بیج کی طرح بویا گیا تھا اور وہ آج پورا درخت بن گیا ہے۔ (فوٹو: دی نیشن)

اس کے برعکس ملالہ کے کیس کو دیکھا جائے تو اس کی ضروری اور غیر ضروری سب سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مثالیں دے دے کر اس کو مغرب کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں طالبان اور امریکی ایجنٹ ملالہ دونوں ہی غلط. ہم ایک دشمن کے مقصد کو اس لئے کہ وہ بظاہر امریکہ کا دشمن ہے اچھا کیسے قرار دے رہے ہیں؟ اور دوسری غلط اس لئے کہ وہ امریکہ کی گود میں جا کر بیٹھ گئی؟ ہاں مگر اس کا مقصد پاکستان میں تعلیم کا فروغ ہے۔ اس کو تو جانے دیجیے فضول سی بات ہے۔ یہ دماغی بیماری ہمارے ذہنوں میں تب تک چھائے رہے گی جب تک ہم خود غلامی کی زنجیریں نہیں توڑیں گے جو ہمارے دماغوں پر ضیاء الحق لگا گیا تھا اور پہرہ دار ان مُلاوں کو بِٹھا گیا جو ہمارے بند دماغوں کا تاوان اب تک لے رہے ہیں۔
مولوی اوریا مقبول صاحب کی ایک اشتہار جس میں بیٹی اپنے باپ سے سرسری سی بغاوت کر کے کرکٹ کے میدان میں جاتی ہے، پر تنقید ایک کھلی اور شفاف مثال تھی۔ اگر سمجھنے والے ان کا سارا کھیل سمجھ جائیں تو!!! یہ اسی قیدی سوچ کے پہرےدار ہیں جن سے یہ مذہب اور کلچر کے نام پر کھیل رہے ہیں۔ بات اگر ملالہ کی ہے تو اس سے ہزار اختلاف رکھیں، مگر یہاں ضروری کیا تھا؟ یونیورسٹی کا بننا یا ملالہ کے نام پر بننا؟ یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جو ہمیں اپنے مفاد میں سوچنے کا بھی حق نہیں دے رہا۔ ہم وہ دماغی قیدی ہیں جن کو اوریا مقبول جیسے مُلاوں کی باتیں اپنے مفادات سے زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ بات صرف ملالہ کی نہیں بلکہ ملک کی ہر اس بچی کی ہے جس کی پوری زندگی اس پر عذاب بنا دی جاتی ہے۔ بچی پڑھ لکھ کر اپنی مرضی کا کوئی مقام حاصل کرنا چاہے وہ بھی مردوں کی عزت کو گوارا نہیں۔ مطلوبہ مقام مل جائے تو اس کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھیں گے، اس پر طرح طرح کے جملے کسیں گے۔
دراصل "وہ جو کہتے ہیں ٹھیک ہی کہتے ہیں” والا رویہ ہی ہے جس کی وجہ سے ہم آج اس نہج پر ہیں کہ ہم طالبان کی اسکول گِراﺅ مہم کو تعلیم کے فروغ پر ترجیح دیتے ہوئے ان حیوانوں کو درُست ثابت کرتے ہیں جنہوں نے ہم سے ہمارے لاکھوں کی تعداد میں عزیز چھینے ہیں۔ اور تو اور ہم نے الگ الگ کیٹاگریز بنا رکھی ہیں۔ نوبل انعام چاہے ملالہ لے یا شرمین عبید چنائے، وہ ضرور مغربی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں اور ملک دشمن ہیں۔ یہ میں نہیں بول رہا بلکہ ہمارے معاشرے کی منافقت کے مختلف پیرائے ہیں جو خود اپنے کپڑے اُتار رہے ہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں سے اپنی دھرتی کی عورت پر جملے بازیاں کرتے سُنا ہے۔ جہاں تک عورت ان کی غلام رہے وہاں تک ٹھیک، جہاں حق مانگا وہاں پٹائی شروع۔ اس پٹائی کا تعلق بھی ہماری بامشقت قید کاٹنے والی سوچ سے ہے جس کا آزاد ہونا شرط ہے۔
اس ذہنی بیماری کی حد تب کراس ہوتی ہے جب غیرت کے نام پر قتل شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کا وجود نہ ہو اور شرمین عبید چنائے جھوٹ بول کر ملک کا نام بدنام کر رہی ہو، تو ہم سب کو اس سے اختلاف رکھنا چاہئے۔ مگر ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ ہمارے ہی معاشرے میں ہمارے ہی گھروں کی بچیوں کو زندہ بھی جلایا جا رہا ہے، گلے بھی کاٹے جا رہے ہیں، وہ زندہ درگور بھی ہو رہی ہیں۔ اب جو احباب کہتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں رپورٹ کیوں ہوتی ہیں اور پھر شرمین عبید اس پر ڈاکومینٹری کیوں بناتی ہے؟ اُن سے معذررت کہ میرے پاس ان کی اس ذہنی بیماری کا کوئی حل نہیں۔ ہم اپنی سوسائٹی کے گند کو دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں، مگر اس گند کو صاف کرنے کی بجائے عورت پر ہی لال پیلے ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ ہمارے ہی معاشرے میں ہمارے ہی گھروں کی بچیوں کو زندہ بھی جلایا جا رہا ہے، گلے بھی کاٹے جا رہے ہیں، وہ زندہ درگور بھی ہو رہی ہیں۔ اب جو احباب کہتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں رپورٹ کیوں ہوتی ہیں اور پھر شرمین عبید اس پر ڈاکومینٹری کیوں بناتی ہے؟ اُن سے معذررت کہ میرے پاس ان کی اس ذہنی بیماری کا کوئی حل نہیں

اگر کبھی بالفرض ہماری ترجیحات آزاد ہو بھی گئیں تو ہمیں ملالہ سے زیادہ اہم تعلیم لگے گی۔ نان ایشوز پر ان مُلاوں کے سامنے سر جھکانے کی بجائے خود مسئلوں کا حل نکالنے کی ہمت ہوگی۔ اور ہاں سب سے اہم بات آزادانہ کسی بھی مناسب رائے کا اظہار ہمیں مذہب سے بغاوت نہیں لگے گا۔ بیٹی تعلیم حاصل کر سکے گی اور اپنی مرضی سے کسی مناسب شعبے کا انتخاب کر سکے گی۔ اوریا مقبول صاحب جیسے مُلاﺅں کی دیہاڑی لگنا بند ہوجائے گی۔ کوئی امریکی ایجنٹ ہوگا نہ ہی کوئی کافر بنایا جائے گا۔ اس ملک میں جس چیز کی کمی ہے وہ صرف ذہنی آزادی ہے۔ ذہن کی آزادی ملک کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ:۔ لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والے بحث و مباحثہ سے متفق ہونا ضروری نہیں)