جنگلی ریچھ سے لڑنے سے پہلے صیب گل (صاحب گل) ایک ایسے شخص کا خاکہ رکھتے تھے جنہیں ہم نے صرف ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھا تھا۔ لمبی داڑھی، لمبے چمک دار بال اور گھنی مونچھیں۔ وہ 60 سال کی عمر میں بھی 40 کے لگ رہے تھے۔ جواں مرد، تروتازہ اور ہمیشہ خوش رہنے والا۔
صیب گل سے ملاقات گویا کسی نیچر سٹیٹ میں رہنے والے انسان سے ملنا تھا۔ ان کو کوئی لالچ، کوئی خوف اور نہ کوئی فکر ہی تھی۔ صرف ایک فکر دامن گیر رہتی کہ ان کے مویشی اونچے چراہگاہوں کی طاقت ور گھاس کھائیں اور تن درست رہیں۔
صیب گل موسمِ گرما کے شروع ہوتے ہی پہاڑی چراہگاہوں پر جانا شروع کرتے اور ساون کی چراہگاہ ’’سرپناغال‘‘ ان کا آخری ٹھکانا ہوتا۔ وہاں اپنا مہینا (40 دن) گزار کر وہ پھر نیچے کی طرف اپنے مویشیوں سمیت سفر شروع کرتے، اور سرما کے لیے آخری منزل پُل بیلہ نامی بانڈا ہوا کرتا تھا۔ وہ اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کو اپنے جانوروں سے بہت پیار ہے۔ اس لیے جو درندہ، مویشیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، صیب گل اس کا دشمن ہوتا ہے۔ ریچھ اور بھیڑیے سے ان کی خاص دشمنی تھی اور اب بھی ہے۔ دو سال قبل ایک بدبخت ریچھ نے صیب گل کی 4 بکریاں مار ڈالیں۔ صیب گل ریچھ کے تعاقب میں اس کے گھر تک پہنچ گئے۔ راستے میں تاک میں بیٹھے تھے کہ کسی ریچھنی نے پیچھے سے صیب گل پر حملہ کردیا۔ صیب گل نے گولی چلائی مگر ریچھنی ان کے سر پر پہنچ گئی تھی۔ دو گھنٹے تک صیب گل ریچھنی سے لڑتے رہے، لیکن ریچھنی نے پہنچتے ہی اس کی آنکھوں اور چہرے پر حملہ کرکے ایک آنکھ ضائع کردی تھی، اور ناک اور ماتھے پر زخم لگا دیے تھے۔ اگر صیب گل کی جگہ کوئی شہری بابو ہوتا، تو ریچھنی کے پہلے ہی وار میں ڈھیر ہوجاتا، لیکن صیب گل مسلسل لڑتے رہے اور آخرِکار ریچھنی کو ایک پہاڑی سے نیچے گرانے میں کامیاب ہوگئے۔ خود چل کراپنے بانڈا کے گھر تک پہنچ گئے اور وہاں سے بھائیوں نے اسپتال پہنچا دیا۔
صیب گل زخموں کی تاب نہ لاکر ہفتہ تک کوما میں چلے گئے۔ اسپتال میں شہری ڈاکٹروں نے صیب گل کے چہرے کا آپریشن کیا، مگر چہرے اور ناک سے جو گوشت ریچھنی نوچ چکی تھی، وہیں پہ سر کے کسی حصے کے گوشت سے پیوند کاری کی۔
اسپتال میں پڑے جب صیب گل سے ملاقات کی گئی، تو وہ بتاتے کہ کچھ نہیں، بس ان کا اور اس ریچھنی کا تھوڑا سا مقابلہ ہوا تھا۔
صیب گل کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ دوسری آنکھ کے نیچے اور ناک پر سر ہی کے کسی حصے کا گوشت پیوند کرنے کی وجہ سے اب ان کے ایک گال پر بال اُگے ہوئے ہیں۔ ناک کا نقشہ بری طرح مسخ ہوگیا ہے، مگر صیب گل اب بھی 70 سال کی عمر میں وہی شوخی رکھتے ہیں۔ اس قدر برجستہ جواب دیتے ہیں کہ ان سے باتیں کرنے کا بڑا مزا آتا ہے۔ وہ کسی بھی شخص کو اپنی برجستگی اور خوش مزاجی سے زیر کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
صیب گل نے اب تک شادی نہیں کی۔ ریچھنی سے دو دو ہاتھ کرنے سے پہلے کچھ امید رکھتے تھے کہ شادی ہوجائے، مگر ذکر شدہ حادثہ کے بعد خود پر طنز کرتے ہیں کہ اس ناک نقشے کے ساتھ انہیں کون قبول کرے گا؟
صیب گل واقعی اس اکیسویں صدی میں فطری (نیچر) سٹیٹ میں رہتے ہیں۔ ان کو کسی حکمران کی فکر ہے، نہ وہ ووٹ ڈالتے ہیں اور نہ کسی ملکی سرحدوں سے کوئی واسطہ ہی ہے۔ اپنی چراہگاہ کو لوگوں کے ساتھ شریک کرتے ہیں اور جو بھی مہمان ان کے پناغال پہنچتا ہے، اس کی خوب خاطرمدارت کرتے ہیں۔ ہماری تو خوب کرتے ہیں کہ ہم رشتہ میں ان کے بھانجے بھی لگتے ہیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔