ایک زمانے میں جب خواندگی (تحریر) نہیں تھی، تو لوگوں کا سارا انحصار تقریر یعنی سننے پہ تھا۔ کسی شخص کے سماجی رتبے، معاشی حالت اور شخصیت کو دیکھ کر اس کی باتوں پر یقین کیا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں کو جلدی متاثر کیا جاسکتا تھا، جس کے پاس طاقت یا ظاہری تقدس ہوتا، وہی سب سے معتبر ٹھہرتا ۔
پھر دنیا نے کروٹ بدلی اور ایک انقلاب آیا۔ لکھائی یعنی تحریر ایجاد ہوئی، اور لوگوں نے اپنی بات صرف بولنے تک محدود نہیں کی، بلکہ تحریر میں لانے کی بھی کوشش کی۔ یوں دنیا میں خواندگی کا رواج ہوا۔ شروع میں خواندگی صرف روزمرہ کے لین دین اور مذہبی تعلیمات تک محدود تھی، مگر کیا تھا کہ دانا لوگوں نے اپنی فکر اور خیالات کو تحریر میں لانا شروع کیا، اور جس بات کو وہ بول نہیں سکتے تھے، اس کو تحریر کرکے رکھ دیا۔ یہاں سے تقریر و تحریر میں فرق پیدا ہوتا گیا۔ تحریر کئی قسموں میں بٹ گئی، یعنی نثر نگاری شروع ہوئی، تو اس میں کئی اصناف اور اقسام پیدا ہوئیں۔ اس طرح تحقیق کو تحریر میں لانا شروع ہوا اور اس کی ہیئت دیگر تحریروں سے مختلف رہی۔
تحریر نے تقریر کو معیار بخشا، اور تحقیق نے اس معیار کو مزید معیاری بنا دیا۔
بیسویں صدی کے آخری 30 سالوں میں دنیا محض تحریری میڈیم (واسطہ) سے آگے نکل کر ڈیجیٹل ہوگئی۔ اب قلم سے تحریر کا رواج دم توڑ گیا، اور اس کی جگہ کمپیوٹر اور موبائل ٹیکنالوجی نے لی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا میں ویڈیو آیا، جس نے تقریر کو براہِ راست محفوظ کرنا شروع کیا۔
یوں ہم کئی نئی چیزوں سے متعارف ہوئے، مگر خواندگی کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہی۔ اب بھی ویڈیو یا تقریر کے مقابلہ میں تحریر کو زیادہ معیاری مانا جاتا ہے، مگر کیا کریں……! ہمارے جیسے معاشرے جو ابھی پوری طرح تحریری ہی نہیں ہوئے تھے، اور اسی وجہ سے خواندہ نہیں ہوئے تھے کہ اچانک ان کا سامنا ویڈیوز اور انٹرنیٹ سے ہوگیا۔
ہماری حالت اب ایسی رہ گئی ہے کہ ہم تحریر اور ڈیجیٹل میڈیا کے بیچ لٹک کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں تحقیق کی کوئی تربیت تھی، اور نہ تحریر اور پڑھائی ہی میں ہمیں کوئی دسترس حاصل تھی۔
ہم وہیں کے وہیں رہ گئے کہ بس سنی سنائی باتیں جو اَب کثرت سے سوشل میڈیا پر بھی سنائی جاتی ہیں، ان پر ہم ایمان لانے لگے۔ جو چیز اپنے کسی جذباتی رویے سے میل کھاتی ہے، اسے مان جاتے ہیں، جب کہ اگر کوئی ایسی بات اپنے پہلے سے بنائے گئے نظریات اور ذہنی تعصبات سے میل نہیں کھاتی، تو اسے کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پر آج بھی آسانی سے حکمرانی کی جاسکتی ہے۔ ہمیں آج بھی آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے، اور ہمیں آج بھی آسانی سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔
اگر واقعی علم و تحریر سے اپنا رشتہ بڑھانا ہے، تو تحریر کو پڑھنا اور سمجھنا ہے۔ یعنی خود تحقیق کرنی ہے ۔ ورنہ یوں ہی جذباتی ہوتے رہیں گے اور لوگ ، اندورنی اور بیرونی، ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔