سوپور کے 65 سالہ بشیر احمد کو بھارتی پیرا ملٹری فورس نے گولی ماری۔ بشیر احمد کے ہمراہ تین سالہ نواسے کی تصویر دیکھ کر کوئی پتھر دل ہی ہوگا جو تڑپا نہ ہو۔ بشیر کا نواسہ رات کو نانا کے سینے کے ساتھ چمٹ کر سوتا، اور اکثر ان کا کان پکڑ لیتا تھا۔ ماں نے بتایا کہ اب وہ رات کو رو رو کر بستر سے اُٹھ جاتاہے۔ نانا کی یاد اسے کسی کل چین نہیں لینے دیتی۔
نانا کی نعش پر بیٹھے ننھے کشمیر ی بچے کی تصویر نے مجھے اس شامی بچے کی یاد دلائی جس کی ساحل پر کھڑے تصویر دیکھ کراہلِ مغرب نے سرحدوں کے دروازے مہاجرین کے لیے کھول دیے تھے۔ ایسی ہی ایک تصویر نے ویت نام کی جنگ کا خاتمہ کرایا اور امریکہ کو ویت نام سے خالی ہاتھ نکلنے پر مجبور کیا تھا۔
یہ 1972ء کا قصہ ہے ۔ویت نام کی جنگ عروج پر تھی۔ ’’کم فواک‘‘ نامی ایک ویت نامی بچی کی تصویرامریکی اخبار ات میں چھپی جس نے شرق وغرب میں تہلکہ مچا دیا۔ ویت نام کے ایک گاؤں پر امریکی لڑاکا طیاروں نے بمباری کی۔ فواک کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ جسم کا زیادہ تر حصہ جھلس گیا۔ بہن بھائیوں سمیت یہ بچی جان بچانے کی خاطر ننگی بھاگ رہی تھی۔ اے پی کے فوٹوگرافر نے یہ منظر محفوظ کرلیا۔ اس تصویر نے امریکی رائے عامہ کو ویت نام کی جنگ کے خلاف صف آرا کر دیا۔ امریکی صدر رچرڈنکسن نے تصویر کو جھوٹا قرار دیا۔ امریکی شہریوں نے اُن کی سنی اَن سنی کردی۔ جنگ کے خلاف جاری احتجاجی تحریک میں شدت آگئی۔
حتیٰ کہ امریکہ کے تعلیمی اداروں میں جنگ کے حامیوں کا کوئی نام لیوا نہ رہا۔
آغاز ہی میں امریکی حکومت کو علم ہوگیا تھا کہ وہ ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہیں،لیکن ان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے۔ حکومتوں کی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ بڑا فیصلہ کرنے سے قبل سیاست دان جائزہ لیتے ہیں کہ اس کا انہیں یا ملک کو کیا فائدہ یانقصان ہوسکتاہے؟1965ء میں امریکہ ویت نام کی جنگ میں الجھا۔ 111 بلین ڈالر جنگی اخراجات کیے۔بھاری جنگی اخراجات نے امریکہ کا سالانہ بجٹ خسارے میں بدل دیا۔ یہی نہیں، 30 لاکھ امریکی شہری کسی نہ کسی سطح پر اس جنگ میں شریک ہوئے۔ 15 لاکھ براہِ راست جنگی مہمات کا حصہ بنے۔ 1968ء میں 543,000 امریکی فوجی ویت نام میں برسرِ پیکار تھے۔ جنگ میں 58,220 فوجی جان بحق،150,000 زخمی اور 21,000 ہمیشہ کے لیے معذور ہوئے۔ تما م تر جانی و مالی نقصانات کے باوصف امریکی حکومت ناکامی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی۔
امریکی حکومت ویت نام میں تعینات اپنے فوجیوں کو مطالعے کے لیے سرکاری اخبارات ورسائل فراہم کرتی، تاکہ وہ حقیقت سے باخبر نہ ہوسکیں۔ اخبارات میں جنگ کی ہولناک کہانیاں چھپتیں اور سرکاری پالیسیوں پر کڑی تنقید ہوتی۔ صدر نکسن کی حکومت میڈیا سے اس قدر خائف ہوئی کہ سرکاری اجلاسوں میں منصوبے بنائے جانے لگے کہ کس طرح آزاد میڈیا کو لگام دی جائے۔ جنگ مخالف عناصر کو امریکہ کادشمن قراردیا جاتا۔ ان کی حب الوطنی کوچیلنج کیا جاتا۔
جنگ کے آغاز ہی سے امریکی یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک شروع ہوگئی تھی، جو بتدریج قوت پکڑتی گئی۔ 1969ء میں 20 لاکھ امریکیوں نے ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کیا۔ کچھ عرصہ بعد اس جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجی بھی احتجاجی میں شامل ہوگئے۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کیاگیا، اور انہیں وطن دشمن قرار دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے مظاہروں کی بھرپور کوریج کی۔ امریکی ٹیلی وِژن بھی زیادہ آزادی کے ساتھ حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنا شروع ہوگیا تھا۔ سول سوسائٹی، اخبارات اور ٹیلی وژن نے مشترکہ طور پر جنگ کے خلاف رائے عامہ ہموار کی۔
جون 1972 میں کم فواک کا فوٹو اخبارات میں چھپا، تو پورے امریکہ کا سر شرم سے جھک گیا۔9 برس کی بچی، بے لباس، سارا جسم جھلساہوا۔ یہ امریکہ کی تاریخ کا نکتۂ رجوع (Turing pint) بن گیا۔ رائے عامہ نے جنگ کے حامیوں کو مسترد کر دیا۔ صدر نکسن کو چھے ماہ کی تحریک کے بعد ویت نام سے فوجی انخلا کا اعلان کرنا پڑا۔
یہ تصویر اتنی طاقتور سمجھی جاتی ہے کہ اسے دنیا کی ان دس تصویروں میں شمار کیا جاتا ہے، جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلا۔ ’’کم فواک فاؤنڈیشن‘‘ قائم کی گئی۔
اس طرح ’’کم فواک‘‘ کو ملکۂ برطانیہ نے ملاقات کی دعوت دی۔ امریکہ کے بڑے بڑے ٹیلی وژن چینلوں نے اس کا انٹرویو کیا۔ اقوام متحدہ نے اسے اپنا سفیرِ عمومی مقرر کیا، تاکہ وہ دنیا میں متاثرہ افراد کی مدد کرسکے۔ چند برس ہوئے، کم فواک کی خود نوشت چھپی، جس میں اس نے اپنی ساری کہانی بیان کی ہے۔
کم فواک پر امریکی لڑاکا طیارے کے حملے ہی کی طرح ملالہ یوسف زئی پر حملے کی محض ایک خبر اور تصویر نے پاکستان میں شدت پسندوں کے حامیوں کو یک و تنہا کردیا تھا۔ اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی بوسنیا کے صدر باقر عزت بیگوچ کے اعزار میں دیے جانے والا استقبالیہ چھوڑ کر ملالہ کی عیادت کے لیے پشاور گئے۔یہ پیغام تھا کہ فوج کی شدت پسندوں کے حوالے سے پالیسی میں کوئی ابہام نہیں۔
کم فواک کی قربانی نے ویت نام کو آزادی عطا کی۔ ملالہ کی قربانی نے پاکستانیوں کو دہشت گردوں کے خلاف صف آرا کیا۔ اب بشیر احمد کے تین سالہ نواسے کی تصویر نے دنیاکو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ظالم کا ہاتھ روکیں۔کشمیر یوں کو نظراندازکرنا ترک کر دیں۔ ان کی کہانی سنیں۔ ان کی خواہشات اور سیاسی عزائم کا احترام کریں۔
’’کم فواک‘‘ یا ’’ملالہ‘‘ کی تصویروں کی طرح یہ تصویر کبھی عالمی ضمیر کو ضرور جھنجھوڑے گی؟ اہلِ عالم میں اگر رتی برابر بھی حمیت اور انسانیت کا درد ہوا، تو وہ ضرورجاگ اٹھیں گے۔آج نہیں تو کل ضرور بھارتیوں کا دل بھی پگھلے گا۔ نانا کی چھاتی پر بیٹھا یہ بچہ انہیں چین کی نیند سونے نہیں دے گا۔
کاش! آغا حشرکاشمیری زندہ ہوتے، توکشمیری نوجوانوں کی چھے ہزارگمنام قبروں پر ایسا ڈراما رقم کرتے کہ ہر آنکھ سے لہو ٹپک جاتا۔ عالمی رائے عامہ بدل ڈالتے۔ میرے ہم وطن ’’چراغ حسن حسرتؔ‘‘ کشمیریوں پر جاری ظلم و ستم دیکھتے تو حشر اٹھادیتے ۔ باکمال افسانہ نگار سعادت حسن منٹو حیات ہوتے، تو’’ ٹیٹوال کا کتا‘‘ جیسایادگار افسانہ ایک نئے آہنگ میں مرقوم ہوتا۔ دنیا صرف منٹو کی آنکھ سے کشمیر کو دیکھتی۔ افسو۶س! جو کشمیریوں پر گذرتی ہے، اسے رقم کرنے والاکوئی ادیب یا شاعر ہم میں نہیں۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔