قیامِ پاکستان کے بعد سے دورِ حاضرمیں تیسری مرتبہ ایسا ہوا کہ اقتدار کی منتقلی میں جبراً کسی حکمراں کو برطرف نہیں کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے اقتدار کی مدت کو مکمل کیا اور عبوری حکومت کے زیرِ سایہ عام اتخابات ہوئے۔
اِس وقت وزیر اعظم عمران خان کو ’’مائنس‘‘ کرنے کی افواہوں نے زور پکڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے وزیرِ باتدبیر نے تو یہ بھی کہا کہ اگر عمران خان مائنس ہوبھی گئے، تو احتساب کا سلسلہ نہیں رکے گا۔
حزبِ اختلاف کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے آخری آپشن سمیت موجودہ بیان، دراصل ان کی کمزور پوزیشن کو عیاں کررہا ہے۔ بادی النظر میں دیکھاجائے، تو انہی حوادث کا سلسلہ جای ہے، جس طرح کسی کو یقین نہیں تھا کہ کم نشستوں کی وجہ سے وفاق میں تحریکِ انصاف کی حکومت بن جائے گی، لیکن انہونی ہوئی اور پی ٹی آئی کی شدید ترین حریف ایم کیو ایم ’’کنگ میکر‘‘ جماعت بن گئی۔ پاکستان مسلم لیگ ق سمیت بلوچستان کی ایسی قوم پرست جماعتیں اور اراکین بھی پی ٹی آئی کے اتحادی بن گئے، جو پاکستان مسلم لیگ ن کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے۔
حزبِ اختلاف کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی صوبۂ پنجاب میں تو حکومت بنا ہی نہیں سکتی، لیکن جمہوریت میں بندے گننے والوں کو اُس وقت احساس ہوا کہ ان کا حساب کتاب کمزور ہے۔یوں تختِ لاہور بھی پی ٹی آئی کے حصے میں آگیا۔
پھر گمان کیا گیا کہ مہنگائی سے پریشان عوام اُٹھ کھڑے ہوں گے، لیکن غربت و احساسِ محرومی کے شکار عوام کو آنکھوں میں عمران خان امید کی کرن اور مخالفین کو موتیا نظر آتا ہے۔
اس طرح معیشت کے دگرگوں حالات کے بعد حزبِ اختلاف کو لگا کہ انہیں منتخب کرانے والوں کو بھی اب اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا، لیکن ہنوز عمران خان اُسی طرح اپنے حریفوں کی چھاتی پر مونگ دلتے نظر آ رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں تو صد فیصد یقین تھا کہ قومی اسمبلی نہ سہی، سینیٹ اور صدر کا عہدہ تو پکا اپوزیشن جماعتوں کے پاس رہے گا، لیکن یہاں پر بھی انہونی ہوگئی اور چشمِ فلک نے جو نظارا دیکھا، کم ازکم ایسی ’’جمہوریت‘‘ کو تو 22 توپوں کی سلامی دینی چاہیے۔
قارئین، کسی بھی معروف سیاسی جماعت کے قائد کو ’’مائنس‘‘ کرنے کی خواہش ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کی دلی تمنارہی ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ایوب خان نے طویل دورِ اقتدار میں اپنے تمام مخالفین کو مائنس کیا، لیکن جب عوام کے منھ سے اپنی ذات کے لیے برا بھلا سنا، تو خود ’’مائنس‘‘ ہوگئے اور عنا نِ حکومت ایک ایسے شخص کے ہاتھ آئی جس نے مملکت کے ایک حصے کو ہی ’’مائنس‘‘ کروا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کئی سیاسی جماعتوں کو ’’مائنس‘‘ کرنے کی کوشش میں ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ پر پابندی عائد کرا دی، لیکن حالات کے دھارے میں وہ خود ’’مائنس‘‘ ہوگئے اور جنرل ضیا الحق ’’مردِ مومن‘‘ بن کر اپنے ’’ہم وطنو!‘‘ کے سامنے آگئے۔ انہوں نے آخری وقت تک بے نظیر بھٹو کو ’’مائنس‘‘ کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن انہونی ہوئی اور وہ خود طیارہ حادثے میں ’’مائنس‘‘ ہوگئے۔
نواز شریف نے ’’مائنس‘‘ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن مائنس اور پلس کا یہ کھیل ان کے ساتھ بھی کھیلا گیا، یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کے واقعے میں خود ’’مائنس‘‘ ہوگئیں، تو باؤ جی سیاست اور اقتدار سے ’’مائنس‘‘ ہوگئے۔ پی پی پی نے وزیراعظم کو کھویا، لیکن ان کی حکومت ’’مائنس‘‘ نہیں ہوئی۔
اس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے وزیراعظم کو کھو دیا، لیکن حسنِ اتفاق کہ ان کی حکومت بھی ’’مائنس‘‘ نہیں ہوئی، لیکن مبینہ آر ٹی ایس نے دونوں سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے ’’مائنس‘‘ کرکے اقتدار کا ہما عمران خان کے سر رکھ دیا۔اقتدار کو پھولوں کی سیج سمجھنے والے وزیراعظم یقینا محسوس کرتے ہوئے اس امَر کا اب اعتراف کریں گے کہ حکمرانی کرنا آسان نہیں۔
وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جس طرح اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں عمران خان کو اپنی پہلی تاریخی تقریر کرنے نہیں دی۔ اس کے بعد محسوس یہ ہو رہا تھا کہ تحریکِ انصاف کی اقتدار کی کرسی کے ایک پائے کو جلد دیمک لگ جائے گی، لیکن ایسا حزبِ اختلاف کی خواہش کے مطابق نہ ہوسکا۔ کیوں کہ عمران خان کی سب سے بڑی حلیف خود اپوزیشن تھی۔
یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ان کی اتحادی جماعتوں سے زیادہ حزبِ اختلاف کی نااتفاقی نے بچائے رکھا۔ اپوزیشن جماعتوں نے کئی بار سنہری مواقع گنوائے، جس میں وزیراعظم ’’مائنس‘‘ ہوچکے ہوتے، لیکن حزبِ اختلاف کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔ رات کو سوتے ہوئے اچانک محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ تاریک کمرے میں تو اسے نیند آتی ہی نہیں۔ حزبِ اختلاف نے حکومت کا جتنا ساتھ دیا، اس کے بعد عوام سمجھ چکی ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ آپسی اختلافات نے حکومت کو دوام بخشا۔ گو کہ ان کودرپیش مشکلات کے بعد عمران خان کا ایک تاریخی جملہ یاد آتا ہے، کہ اچھا ہوا ہم اقتدار میں نہ آئے، ورنہ ناکام ہوجاتے۔ کوئی بھی حکومت خود کو کبھی ناکام تسلیم نہیں کرتی۔ کوئی ریاست شکست خوردہ کہلانا نہیں چاہتی۔ سیاسی جماعتوں کی دلی خواہش ضرور ہوتی ہے کہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے ہوں، یا نہ ہوں……! لیکن ان کے اقتدار کی مدت ضرور پوری ہونی چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان نے جب اپنی پارٹی کے اراکینِ اسمبلی اور اتحادی اراکین کے اعزاز میں عشائیہ دیا، اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’حکومت کہیں نہیں جا رہی، اپنی مدت پوری کرے گی، اگلے 5 سال بھی ہمارے ہیں، موجودہ حالات میں ہمارے سواکوئی چوائس نہیں۔‘‘ ان کے اس بیان پر حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے مونس الٰہی نے لکھا کہ ’’پی ٹی آئی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کل بیان۔ مگر کیا صرف مدت پوری کرنا زیادہ ضروری ہے، یا عوام سے کیے وعدے پورے کرنا؟‘‘
سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ حکومت کبھی، کہیں بھی نہیں جاتی، بلکہ افراد کچھ اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں۔ چہرے بدل جاتے ہیں، حکومت قائم و دائم رہتی ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ حکومت ہمیشہ نازک دور سے گذر رہی ہوتی ہے۔ اس کا یہ نازک دور کبھی ’’مائنس‘‘ نہیں ہوتا۔ ہر نیا آنے والا، جانے والے کی کوتاہیوں، معیشت کی تباہ کاریوں اور مملکت کے بیڑا غرق کرنے سے عوام کو آگاہ کرتا ہے ۔
قارئین، مجھے بھی اس بات پر کامل یقین ہوگیا ہے کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ حکومت بنانے والے اس لیے حکومت نہیں بناتے کہ کوئی بھی اُسے چلتا کردے۔ اس لیے حکومت بنانے والے حکومت کو اُس وقت تک چلاتے رہتے ہیں جب تک کسی نئے نجات دہندے کی کلو ننگ مکمل نہیں ہوجاتی۔
اللہ بس، باقی ہوس!
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔