روس سے تعلق رکھنے والا، سائیکالوجی کا سٹوڈنٹ ہے۔ تین سال تک سائیکالوجی پڑھنے کے بعد اُسے یونیورسٹی سے نکالا جا چکا ہے۔ اس نوجوان نے بعد میں ایک ایسا گیم بنالیا جس کی تکمیل ’’خودکشی‘‘ پر ہوتی ہے۔ اس گیم کا آغاز 2013ء میں ہوا۔ یہ کھیل پچاس مراحل پر مشتمل ہے جو پچاس دنوں میں پورا ہوتا ہے، یعنی ایک دن میں اس کا صرف ایک مرحلہ ہی طے کیا جاتا ہے۔

Philipp Budekin بلیو وہیل گیم کا خالق، جو آن لائن خود کو ’’فلپ دی فاکس‘‘ ظاہر کرتا ہے۔

یہ گیم "VKontakte” ویب سائٹ پر کھیلا جاتا ہے جو کہ آج کل روس میں بہت مقبول ویب سائٹ بن چکی ہے۔ اس گیم کی وجہ سے ڈھیر ساری ویب سائٹس کو بند بھی کیا جاچکا ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق 2015-16 ء کے درمیان 80 سے لے کر 130 نوجوان اور بچے اس کھیل کا شکار ہوئے۔ اس ’’سوسائڈ گروپ‘‘ کے کل بتیس ممبرز تھے جن کی سربراہی ’’فلپ‘‘ خود کرتا تھا۔ ’’فلپ‘‘ کا کہنا ہے کہ ’’میرے کھیل کا اصل مقصد معاشرے سے فضول اور بے کار قسم کے لوگوں کو ختم کرنا ہے۔‘‘

روسی میڈیا کے مطابق 16-2015ء کے درمیان 80 سے لے کر 130 نوجوان اور بچے اس کھیل کا شکار ہوئے۔ اس ’’سوسائڈ گروپ‘‘ کے کل بتیس ممبرز تھے جن کی سربراہی ’’فلپ‘‘ خود کرتا تھا۔

روسی خبر رساں ادارے نے گیم کے پچاس مراحل شائع کئے ہیں، جس کی رشنی میں پہلے مرحلے میں ہاتھ کو بلیڈ یا ریزر سے کاٹ کر تصویر اُن کو بھیجنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں کچھ اور بھی کرنا پڑسکتا ہے جیسا کہ خطرناک ویڈیوز دیکھنا وغیرہ۔ دوسرے مرحلے میں صبح چار بجکر بیس منٹ پہ اُٹھ کر وحشت ناک اور خطرناک ویڈیوز دیکھنا ہے۔تیسرے مرحلہ میں بازو کو تین جگہوں پر کاٹنا ہوتا ہے۔ چوتھے مرحلہ میں کاغذ پر مچھلی کی تصویر بنا کر ان کو بھیجنا ہوتا ہے۔ پانچویں مرحلہ میں اگر آپ ’’بلیو وہیل‘‘ بننا چاہتے ہیں، تو پیر کے حصہ پر بلیڈ کی مدد سے’’یس‘‘ لکھیں، اگر نہیں بننا ہے، تو سزا کے طور پر خود کو کئی جگہوں پر زخمی کریں۔ چھٹے مرحلہ میں آپ کو کچھ بھی کر دکھانے کو کہا جاسکتا ہے۔ساتویں مرحلہ میں ہاتھ کاٹ کر ’’ایف 40‘‘ لکھنا ہے۔ آٹھویں مرحلہ میں ویب سائٹ پہ ’’آئی ایم وہیل‘‘لکھنا ہے۔ نویں مرحلہ میں کچھ ایسا کر دکھانا ہوتا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ آپ خوف کو شکست دے رہے ہیں۔ دسویں مرحلہ میں صبح چار بجکر بیس منٹ پرایک اونچی چھت پر چڑھنا ہوتا ہے۔ گیارہویں مرحلہ میں پھر ہاتھ کاٹنا ہوتا ہے۔ بارہویں مرحلہ میں خطرناک ویڈیوز سارا دن دیکھنے کا عمل پورا کرنا ہوتا ہے۔ تیرہویں مرحلہ میں گانے سننا ہوتا ہے۔ چودہویں مرحلہ میں ہونٹ کاٹنا ہوتا ہے۔ پندرہویں مرحلہ میں سوئی کے ذریعے بازو زخمی کرنا ہوتا ہے۔ سولہویں مرحلہ میں خود کو زخمی کرکے بیمار بنانا ہوتا ہے۔ سترہویں مرحلہ میں اونچی چھت کے کنارے بیٹھنا ہوتا ہے۔ اٹھارہویں مرحلہ میں پل کے کنارے کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ انیسویں مرحلہ میں کرین پر چڑھنا ہوتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔ بیسیویں مرحلہ میں آپ کے اعتماد کا اندازہ اپنے طریقے سے لگایا جائے گا۔ اکیسویں مرحلہ میں دوسرے کھلاڑی سے سکائپ پہ باتیں کرنا ہوتا ہے۔ بائیسویں مرحلہ میں اونچی چھت پر پاؤں لٹکا کر بیٹھنا ہوتا ہے۔ تیئسویں مرحلہ میں ایک بار پھر کچھ بھی کرنے کو کہا جاسکتا ہے۔ چوبیسویں مرحلہ میں کوئی خفیہ ٹاسک دیا جاسکتا ہے۔ پچیسویں مرحلہ میں وہیل کیساتھ میٹنگ ہوتی ہے۔ چھبیسویں مرحلہ میں کھیلنے والے کی مرنے کی تاریخ بتائی جاتی ہے۔ ستائیسویں مرحلہ میں ریل کی پٹڑی پر جانا ہوتا ہے۔ اٹھائیسویں مرحلہ میں سارا دن خاموش رہنا ہوتا ہے۔ انتیسویں مرحلہ میں وہیل بننے کا عہد کرنا ہوتا ہے جبکہ تیسویں مرحلے سے لے کر انچاسویں مرحلہ تک روز صبح چار بج کر بیس منٹ پہ آٹھ کر ان کے بھیجے گئے وحشت ناک، دہشت ناک اور خطرناک قسم کی ویڈیوز دیکھنا پڑتا ہے اور اس قسم کے گانے بھی سننا پڑتا ہے۔

چھبیسویں مرحلہ میں کھیلنے والے کی مرنے کی تاریخ بتائی جاتی ہے۔

ان مراحل میں ہر روز جسم کے کسی نہ کسی حصے کو زخمی کرنے کا ٹاسک بھی مل سکتا ہے، یعنی پورے بیس دنوں میں اپنے جسم کے بیس حصوں کو زخمی کرنا ہوتا ہے۔ پچاسواں یعنی آخری مرحلہ ’’خودکشی‘‘ کا ہوتا ہے۔ اس روز پیغام ملتا ہے کہ ’’اگرگیم جیتنا ہے، تو خودکشی کرلیں، ورنہ سمجھیں آپ ہار گئے۔‘‘
عدالت نے لوگوں کو خودکشی پر اکسانے کے جرم میں ’’فلپ‘‘ کو تین سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ گرفتاری کے بعد اس نے کم از کم پندرہ لوگوں کی موت کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ اٹھائیس اور افراد بھی ہیں جو مرنے کیلئے تیار ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک سو تیس کے لگ بھگ افراد خودکشی کرچکے ہیں جبکہ ڈھیر سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو خودکشی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔

خودکشی کرنے والوں میں ارجنٹینا، چین، بھارت، اٹلی، کینیا، پرتگال، روس، سعودی عرب، سپین اورامریکہ کے افراد شامل ہیں۔