بات ہو رہی تھی اُوکاڑے کے بازار کی۔ خواتین کا ذکرِخیر کرنے کے لیے خواہ مخواہ کچے پر اُترنا پڑا ۔ یہ کوئی پچیس تیس لاکھ آبادی والا ہمارے سوات جتنا شہر پنجابی، سندھ، پختون، بلوچ اور کئی دیگر اقوام کا مشترکہ مسکن ہے۔ متذکرہ فہرست میں سندھ دوسرے نمبر پر لکھا گیا ہے، لیکن یہ نمبر ترقی کے لحاظ سے نہیں۔ رقبہ کے حساب سے ہے۔ ہمارے ایک سندھی بھائی کا افسردہ فرمان ہے کہ ’’ترقی کی رفتار کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان آخر میں نہ ہوتا، تو اس دوڑ میں سندھ سب سے پیچھے ہوتا۔‘‘ ہاں، تو اُوکاڑہ ایک طرح سے ’’مِنی پاکستان‘‘ نہیں، ’’مِنی ایشیا‘‘ ہے، یہاں مساجد ہیں، تو مندر، گرودوارے اور دیگر عبادت خانے بھی ہیں۔ یہ لاہور کے عقب میں کوئی سو کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ہمسائیگی کا لحاظ کرتے ہوئے لاہور کے باسیوں نے اِسے اپنے نامی گرامی شہر کے نام سے نوازا ہے، لیکن قد و قامت میں کچھ زیادہ چھوٹا کرکے یعنی ’’چھوٹا لاہور۔‘‘ اس کا اپنا نام اُوکاڑہ ’’اوکاں‘‘ نامی درخت سے منسوب ہے۔ دو صدیاں پہلے یہاں اوکاں کا جنگل ہوتا تھا، جہاں بسا اوقات آنے جانے والے مسافر ٹھہرا کرتے تھے۔ یہاں کے عوامی نمائندے ہمارے والوں کی طرح گونگے، بہرے اور بھوکے نہیں۔ یہ عوای مفاد ات کی بات بھی کرتے ہیں اوراُن کا خیال بھی رکھتے ہیں۔یہاں پر ایک وسیع و عریض اور چلتی پھرتی سچ مچ کی یونیورسٹی موجود ہے، جو ہماری والی کاغذ ساز یونیورسٹی کی طرح محض ڈگریاں نہیں بانٹتی، کچھ نہ کچھ سکھاتی بھی ہے۔ علاوہ ازیں درجن بھر ڈگری کالجز اور بارہ تیرہ درجن ہائر سیکنڈری اور سیکنڈری سکولز بھی موجود ہیں۔ پرائمری سکولزکی توبات نہ کر، وہ تو مشرومز کی طرح روز بہ روز محلہ بہ محلہ اُگتے رہتے ہیں۔ خواتین کی تعلیم کی طرف خود خواتین کامیلان ہمارے مقابلہ میں بدر جہا بہتر ہے۔ یہاں کے لڑکے لنڈورے بھلے۔ ذات اور برادریوں سے تو ہم زیادہ سروکار نہیں رکھتے، لیکن ہم نے سنا کہ سید، شیخ، بلوچ، بودلہ، بھٹی، جٹ، آرائیں، سیال، وٹو، گجر،کمبوہ اورکھرل وغیرہ جیسے قوم قبیلے یہاں آباد ہیں۔
بلوچ قبیلے کے سردار میر چاکر خان رندنے 1518ء میں اوکاڑہ کے علاقہ ستگھرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ پنجاب پر حملہ آور ہونے والی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ چاکر خان رند نے یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا جو اَب خاصا خستہ حال ہے۔ مہاجر قوم بھی کثیر تعداد میں ہے یہاں۔ لگ بھگ کوئی ڈھائی تین لاکھ پختون بڑی عزت اور وقار کے ساتھ پُرامن ماحول میں زندگی جی رہے ہیں اور قوموں کے بیچ فاصلے اور دوریاں مٹا رہے ہیں، یاری دوستی اور قربتیں نباہ رہے ہیں، بڑھا رہے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ یہاں کے باسی گرمیوں میں سلام پور، مرغزار کی پہاڑیوں اور گلی کوچوں میں خصوصاً چھوٹی بڑی ٹولیوں میں ایسے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں جیسے اپنے گھر کے آنگن میں پھٹے پرانے جینز کے ساتھ بطورِ شرٹ انڈر وئیر والا بنیان پہن کریا نہ پہن کر۔ نتیجتاً یہاں کے باسی بھی جواب آں غزل کے طور پر سردی کے موسم میں اُکاڑہ پر ٹڈی دَل کی طرح حملہ زن ہواکر تے ہیں روٹین میں۔دونوں طرف کے لوگ سیر و سیاحت کے علاوہ ایک دوسرے کے گھروں میں شادی بیاہ اور غمی خوشی کے مواقع پیدا ہونے کے انتظار میں ہلکاں ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ پچھلی تین چار دہائیوں سے چل رہا ہے اور مزید پھل پھول رہا ہے۔ ہم جس زندہ دِل اور محبتوں کے امین اُوکاڑہ والے دوست کے مہمان ہیں، اُس کی عمر پچاس سال کے قریب تو ہوگی۔ وہ پشتو بولتا ہے، تو ایسے فَر فَر بولتا ہے جیسے پنجابی۔ وہ پنجابیوں میں اُن کی طرح اور پختونوں میں ہماری طرح اُٹھتا بیٹھتا اور کھاتا پیتا ہے۔ او ر ہاں، اب یاد آیا! یہ تو اُسی متوفی عبد الرحمان کا برخوردار ہے جس کی شبانہ روز محنت کی کہانی تحریر کے پہلے حصہ میں بیان ہوئی اوراب نظروں سے اوجھل، منوں مٹّی نیچے دفن ہے، لیکن اُس کے مثبت کردار کی بدولت سوات کے سلام پور اور اُکاڑہ کے لوگوں کے درمیان بڑی نزدیکیاں پیدا ہوئی ہیں، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید وسیع، مزید مضبوط ہو رہی ہیں۔
یہ شہر مال مویشی کا بھی مالک ہے اور زرخیز زمینوں کا بھی۔ مختلف قسم کے میوہ دار باغات کے علاوہ مکئی اور گنے کی فصلات کی فی ایکڑ پیداوار ملک بھر کے مقابلے میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم آلو کا توتی یہاں سب سے زیادہ بولتا ہے۔ سیکڑوں ایکڑ رقبے پر محیط یہاں کے مچل باغ میں آم، مالٹا، آڑو اور کیلا وغیرہ کے پودے لگے ہیں۔ محدود مقدار میں کاشت کار سبزیاں بھی اُگاتے ہیں، لیکن اپنے شہر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے۔ آلو، مکئی اور سیلہ چاول درونِ ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی برآمد ہوتا ہے، لیکن یہ سب دیپالپورسے گزرتے ہوئے دریا ئے ستلج کی دریا دلی ہے۔یہاں کے ڈیری فارمز کا پنیر بھی ملک کے بڑے شہروں میں سپلائی ہوتا ہے۔یاد رہے اگر اوکاڑہ آنا جانا ہو ا،تو دہلی کا قدیم حلوہ جو بڑی محنت کے ساتھ دال چنے سے بنتا ہے، دوستوں کو گفٹ کرنے کے لیے ضرور ساتھ لتے جائیں، یہ یہاں کا خصوصی تحفہ ہے۔ شام کے وقت جسے خریدنے کے لیے قِطاریں لگتی ہیں۔ علاقے کے کرم فرما ؤں نے ڈھیروں دعاؤں کے بدلے حلوے کے خصوصی پیکٹ تیار کرکے ہمیں عنایت کیے ۔ ویسے پنجاب بھر میں اپنے مریدوں، پیروکاروں، عقیدت مندوں اور دعاؤں کے طلب گاروں کی شبانہ روز بڑھتی تعداد دیکھ کر دِل کرتا ہے کہ یہی اُوکاڑہ شہر میں ’’اپنا پیر اپناآستانہ سکیم‘‘کی داغ بیل ڈالیں، جہاں اپنے پیروکاروں کی گہماگہمی ہو، عصر کو محافلِ سماع ہوں، مغرب کو لنگر کا گرما گرم دال چپاتی اور عشا پڑھنے کے بعد افیونی ٹھنڈائی اور چرسی چائے کا دوردورہ ہو، دھواں دارسگریٹ کے مرغولے بناتے ہوئے سوٹے ہوں، رات گئے میڈم کوثر جاپانی کی جاندار ناچ و دل افروز موسیقی ہو، اور ہر تیسرے مہینے اپنی رسمِ تاج پوشی کی تقاریب کا انعقاد ہو، جس میں وزیراعظم سمیت دیگر وزیر مشیر ہمارے کرامات کی وضاحتیں کرتے پھریں۔ کامریڈ مرید خلقِ خدا کے سامنے ہماری مہارت کے قصیدے گائیں، جِن بھوت کے بھگانے کے، عشق میں کامیابی کے،حمل کے گراؤ اور ٹھہراؤ کے، اور بچہ یا بچی پیدا کرنے کی آپشن کے ۔ یہ کاروبار ففٹی ففٹی پرافیٹ شیئر کی بنیاد پر بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔
اُوکاڑے کے پچانوے سالہ ماسٹر پرویز سے ملنے کو جی چاہا لیکن اِس وقت یہ ممکن نہیں، وہ ہاتھوں میں ہینڈ سپیکر پکڑے پچھلے پینتیس سال سے محلے کے لوگوں کوفجر سے پہلے پہلے اُٹھنے کااعلان کرتا ہے۔ نماز پڑھنے اور نیک کام کرنے کی تلقین کرتا ہے:’’اٹھو، ایمان دارو! آخرت کے لیے تیاری کرو، وضو فرماؤ، تہجد پڑھو اور پھر فجر کے لیے مسجد جانے کی تیاری پکڑو۔‘‘
آپ سے کیا پردہ! نماز کی بات چلی، تو ہم نے بعض لوکل دوستوں کو نمازِعشا ادا کرنے پر اُکسایا اور خودسٹیج ڈراما ’’جٹ دا ڈیرہ‘‘دیکھنے کے لیے دوستوں کے ساتھ نزدیکی تھیٹر پہنچا۔ جہاں کئی رقاصاؤں نے اپنے حسن کے جلوے دکھا دکھا کر یکمشت دادِ تحسین بھی وصول کی، اور کرنسی بھی۔ انہوں نے اپنی نازو اداسے ایک مہمان کی ’’معذور ہوس‘‘ کو ابھارنے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہوئے اپنی بھرپور جسمانی ساز و سامان کو ہلاتے ہلاتے اُس کا ستیا ناس کر دیا، لیکن مہمان کسی صورت ٹس سے مس نہ ہوا۔ کیوں کہ اُس کو اس بابت مشتاق احمد یوسفی صاحب کا وہ تلخ تجربہ بار بار یاد آ رہا تھا جو اُس نے کم و بیش یوں بیا ن کیا تھا کہ ’’پہلے پہل جو ناچ اپنی زندگی میں دیکھا، اس کی دحشت عرصہ دراز تک دل پر بیٹھی رہی۔ اس کا اہتمام چچا جان نے ہمارے ختنوں کی خوشی میں کیا تھا۔ جسے دیکھ کر ہمارا نا پختہ ذہن اس نتیجے پر پہنچا کہ آئندہ بھی رقص دیکھنے سے بیشتر اسی مرحلے (یعنی ختنے کے معاملے)سے گزرنا پڑے گا۔ چناں چہ اب رقص کا صرف نام بھی سن کر جسم میں کپکپی سی دوڑ جاتی ہے۔‘‘
یاد رہے تھیٹر میں رقص و سرود کی محفل میں بیٹھے ہوئے اس مہمان کے جسم میں بھی اُسی طرح کی کپکپی سی دوڑ رہی تھی۔ کیوں کہ وہ بھی بچپنے میں یوسفی جیسی صورتِ حال سے گزر ا تھا۔ تاہم آپ سے کیاپردہ، وہ ٹرکی لڑکی مہمان مسافر کو بری طرح یاد آرہی ہے:
وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے ، تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی اس گھر میں تھے مہمان گئے
پر اس سے تو کچھ بات نہ کی، انجان رہے ، انجان گئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں!
جو ہم سے کہو ہم کرتے ہیں کیا انشاؔ کو سمجھانا ہے
اس لڑکی سے بھی کہہ لیں گے گو اب کچھ اور زمانا ہے
یا چھوڑیں یا تکمیل کریں یہ عشق ہے یا افسانا ہے
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے یہ کیسا تانا بانا ہے
یہ باتیں کیسی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشاؔ جی کا نام نہ لو کیا انشاؔ جی سودائی ہیں
………………………………………….