انسان نے ہمیشہ سے قدرتی مظاہر کی اپنی بساط کے مطابق تشریح کی ہے اور اپنے موجود علم و عقل سے ان کو جاننے کی کوشش بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں کہا جاتا تھا کہ کسی سایہ دار خصوصاً اخروٹ کے درخت کے نیچے مت سوئیں کہ اس کے نیچے ’’سیہ‘‘ یعنی کابوس بیٹھتا ہے اور انسان کی ناک بند کردیتا ہے۔ یہ قدیم انسان کی تشریح تھی اس قدرتی مظہر کی جو اُس وقت ہوتا ہے جب جسم کو اکسیجن کی مقدار کم پڑجائے، یا جسم کے اندر کاربن مونو اکسائیڈ داخل ہونا شروع ہوجائے۔ درخت رات کو سانس لیتے ہیں، یعنی اکسیجن کو کھینچتے ہیں، اور کاربن ڈائی اکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ سایہ دار درخت کے نیچے اس عمل کی وجہ قدیم انسان معلوم نہیں کرسکا، لیکن اس نے اس سے بچاؤ کی ایک ترکیب تو بہرحال بنالی، اور اس عمل کو کسی بدروح، دیو یا جن سے تعبیر کیا۔
انسان افرنیش سے ہی قدرتی مظاہر اور آفات سے لڑتا آیا ہے۔ اس نے قدرتی آفات پر قابو تو نہیں پایا (بلکہ جدید ترقی کئی آفات مثلاً موسمیاتی تبدیلی کی خود وجہ بنی ہوئی ہے) البتہ ان کی شدت کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے، اور ایسا علمی و تحقیقی بنیادوں پرہی ہوا ہے۔
ایک زمانے میں طاعون نامی وبا آئی اور اس نے یورپ کی ایک بڑی آبادی کو برباد کردیا۔ ٹی بی نے مسلسل انسانی زندگیاں نگل لیں۔ اسی طرح چیچک وغیرہ بڑی وبا ہواکرتے تھے۔ اب ان سب کا علاج دریافت ہوچکا ہے۔ پولیو جیسی بیماری کا علاج ممکن ہوا۔ کسی حد تک سرطان جیسی مہلک بیماری کو بھی قابو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب انسانی آبادی کو ایک نئے وبا کورونا وائرس (COVID19) کا سامنا ہے۔ 130 ممالک اس کی زد میں آگئے ہیں۔ بنی نوع انسان کا اب یہ سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
ایسے میں اس مرض سے منسلک کئی کہانیاں جنم لے رہی ہیں، کئی ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک وغیرہ جنم لے رہے ہیں، اور ساتھ ہی کئی سازشی و نرگسی نظریات پھر سے جنم لے رہے ہیں۔ کئی طرح کے سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں۔ دم وغیرہ بھی آزمائے جارہے ہیں۔ کئی ممالک سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور سائنس دانوں پر ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ دن رات کوششیں جاری ہیں کہ کس طرح کوئی دوا تیار کرکے اس بیماری سے نمٹا جاسکے۔ ساتھ ساتھ دعاؤں کی اپیل بھی کی جاتی ہے۔
مذہب اور سائنس کا تقابل ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے، باوجود اس کے کہ ان دونوں کے میدانِ عمل الگ الگ ہیں۔ دونوں کا تقابل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے میں دیکھا جائے تو دونوں ایک ساتھ چلتے تھے، جب انسانی معاشرہ پیچیدہ نہیں تھا۔ جوں ہی انسانی معاشرے میں نئے علوم نے جنم لیا (جن کی ضرورت مختلف انقلابات کی صورت میں آئی) سائنس اور مذہب دونوں نے ان میں مداخلت شروع کردی، اور اس طرح دونوں ایک دوسرے کے حریف بن گئے ۔
اگر موجودہ آفت کورونا سے نمٹنا ہے، تو اس جنگ کو بنیادی طور پر سائنس پر ہی چھوڑنا ہے، اور مذہب کو اس کی مدد کے لیے بلایا جاسکتا ہے۔ خانۂ کعبہ جیسی جگہ کو خالص سیاسی بنیادوں پر الکوحل ملے سینیٹائزرز سے صاف کیا گیا۔ ایران اور کئی دوسرے ممالک میں باجماعت نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس مسئلے پر سائنس جو بتائے اس ہی پر عمل کرنا ہے۔ مذہبی جذبات اپنی جگہ لیکن ان کو اس مسئلے سے نمٹنے میں حائل نہیں ہونا چاہے، اور نہ کسی سماجی یا سیاسی مسئلے کو یہاں آڑے ہی آنا چاہیے۔
کورونا سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلی بات احتیاط ہے اور سماجی فاصلے رکھنا ہے۔ احتیاط میں بنیادی بات صفائی کی ہے، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مذہب صفائی کا بھر پوردرس دیتا ہے۔
جھاڑ پھونک، دم وغیرہ سے بہتر ہے کہ صفائی پر زور دیا جائے۔ دعا یا نیک خواہشات کا اظہار ہمیشہ ایک بہتر عمل رہا ہے۔ البتہ صرف ان پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا۔ کسی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار یا دعا کرنا ایک نفسیاتی عمل ہے، اور یہ طبی طور پر اندر سے دفاعی نظام کو مضبوط کرسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی سے اچھی بات کہتے ہوئے سامع کے چہرے پہ تازگی آجاتی ہے۔ یہ تازگی اندر طبی تغیر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ تو ایک دوسرے کے لیے دعائیں دیا کریں، لیکن سائنسی بنیادوں پر بتائے گئے اصولوں پر عمل پیرا رہیے گا۔ آفات، نیک اور بد کو نہیں دیکھتیں۔ گورے اور کالے میں فرق نہیں کرتیں۔ امیر اور غریب میں کوئی فرق روا نہیں رکھتیں۔ نسل اور زبان کا خیال نہیں کرتیں۔ مندر، مسجد، گرجے میں تمیز نہیں کرتیں۔ بڑی ظالم ہوتی ہیں یہ۔
لہٰذا ایک دوسرے کو کوسنے کا وقت نہیں۔ اس بلا سے لڑنے کا وقت ہے۔ اس اَن دیکھے بلا سے لڑنا احتیاطی تدابیر اپنانا ہی ہے۔
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔